آج کل شدید سردی کی لہر آئی ہے، لاہورسمیت پنجاب، کے پی، بلوچستان اور سندھ کے بیشتر شہردھنداور یخ بستہ ہوائوں کی زد میں ہیں۔ گلگت بلتستان میں تو خیر ان دنوں ویسے بھی درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے کا رخ کرنے لگتا ہے۔ کراچی کے سوا شائد ملک بھر میں زبردست قسم کی برفیلی ہوائیں چل رہی ہیں۔ کراچی میں بھی یار لوگوں نے اپنے کوٹ نکال لئے کہ یہی چند دن ہی انہیں اس کے لئے مل پاتے ہیں۔لاہور میں رہتے تیئس چوبیس سال ہونے کو آئے ہیں، بڑے طویل عرصے بعد دسمبر میں اتنی سردی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس سے پہلے پرانے لاہوریوں سے قصے سنتے تھے کہ کبھی یہاں دسمبر میں راتیں اتنی یخ بستہ ہوتی تھیں کہ پانی پر برف کی سی ہلکی تہہ بن جاتی۔ آج کل نئے لاہوریوں کو یہ قصے بتانے کی ضرورت نہیں، وہ خود ہی خون جما دینے والی سردی سے گزر رہے ہیں۔ دھند اتنی گہری ہے کہ کئی بار تو رات نو دس بجے دفتر سے نکل کر گھر پہنچتے پہنچتے پندرہ منٹ کے بجائے گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ پنجاب کے لوگوں کو چار ماہ سخت گرمی اور تین چار ماہ جان لیوا قسم کی حبس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی کے علاوہ باقی سندھ کا بھی یہی حال ہے۔ اب تو کراچی میں بھی گرمی پڑنے لگی ہے، مگر وہاں اڑتالیس پچاس ڈگری والی قیامت صغریٰ کا معاملہ نہیں۔ہم لوگوں کوآگ برساتے دنوں میں پسینہ اگلتے بدن کے ساتھ سرما کے دنوں کی خوشگوار یاد ہی حوصلہ دیتی ہے۔ہمارے ایک دوست جون کے مہینے سے پرا مید ہوجاتے ہیں کہ اپریل مئی گزر گیا،جون بھی نکل ہی جائے گا، پھر جولائی اور اگست کے بعد ستمبر نے بھی چلا ہی جانا ہے ۔ نومبر میں ان سے ملاقات ہو تو چہرے کی طمانیت دیدنی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں، ابھی دسمبر،جنوری ، فروری نے آنا ہے۔ مارچ میں البتہ ان کے چہرے پر تفکرات کی گرد چھانے لگتی کہ خوفناک موسم گرما یاد آنے لگتا ہے۔آج کل تو خیر گرمی کے ستائے ہوئے یہ سب لوگ بھیگے بھیگے، یخ بستہ دسمبر کا مزہ لے رہے ہیں۔ ویسے تویہ میرے جیسے لوگوں کا مسئلہ ہے، ورنہ صوفی مزاج لوگ ان سب باتوں سے بے نیاز ہیں۔ ہمارے محترم ومکرم سرفراز شاہ صاحب نے اپنی ایک کتاب میں واقعہ لکھا کہ وہ اپنے مرشد قبلہ یعقوب علی شاہ صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ جس طرح عام معمول ہے ،بات شروع کرنے کے لئے موسم پر تبصرہ کر دیا۔ گرمی کے دن تھے، کہہ بیٹھے قبلہ آج شدید گرمی ہے۔ یعقوب شاہ صاحب شفیق بزرگ تھے، مگر تربیت مقصود تھی یا احتیاط کا تقاضا، سن کر برہم ہوئے۔ کہنے لگے تم کون ہوتے ہو اپنے مالک کے بنائے موسموں پر تنقید کرنے والے ؟کیا غلام کو یہ حق حاصل ہے کہ آقا کے فیصلوں پر نکتہ چینی کرے؟اس طرح کی سخت تنبیہہ کے بعد سننے والے تمام احباب کی تربیت ہوگئی کہ سالک کو ہر حال میں خدا کا شکرگزار رہنا چاہیے اور برسبیل تذکرہ بھی ایسا کوئی جملہ نہ کہا جائے جس پر تادیب ہوسکے۔ سرفراز شاہ صاحب کے اپنے تربیت یافتہ لوگوں کا بھی یہی حال دیکھا۔ برادرم صابر ملک اور دیگر احباب سے کبھی کسی بات کا شکوہ نہیں سنا۔ ایک دن شاہ صاحب کے دعا گھر میں ایک صاحب سے ویسے ہی پوچھ بیٹھا ، کیا حال ہے، ٹھیک ہیں؟ بڑی نرمی سے جواب دیا ،اللہ کا شکر ہے۔ایک آدھ اور سوال کیا توموصوف بول اٹھے ، بھائی دن توبدلتے ہی رہتے ہیں، کبھی نرم تو کبھی قدرے سخت، ہر ایک کو انہی معمولات سے گزرنا پڑتا ہے، اس میں تذکرہ کرنے والی کیا بات ہے؟ یہ جواب میرے جیسوں کے لئے خاصا مایوس کن تھا، جو موسم پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی دس پندرہ منٹ گزار دیتے ہیں اور سخت گرمی یا سردی کی شکایت میں نت نئے تشبیہات، استعارے لے آتے ہیں۔ اہل تصو ف اس لحاظ سے کوئی مزے دار لوگ نہیں۔ شکوہ نہ شکایت، بس سر جھکا کر تسلیم ورضا کا پیکر بنے جیتے رہتے ہیں۔ ہم تو ایسے معاملوں میں’’ اللہ کا شکر ہے‘‘ بھی ایسی گلوگیر آواز اور دلسوز لہجے میں کہتے ہیں کہ سننے والا کانپ اٹھے۔ اسے اندازہ ہوجائے کہ غریب ہے تو مشکل میں، مگر اپنی’’ اعلیٰ ظرفی‘‘ اور’’ عظمت کردار‘‘کی وجہ سے شکوہ نہیں کر رہا۔ پنجاب میں سرد موسم کے اثرات سیاست پر بھی پڑے ہیں۔ پنجابی محاورے میں ’’ٹھنڈ ہے‘‘کا محاورہ طنز کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ کسی شخص کی بے نیازی، سستی، نالائقی پر تبصرہ کرناہو توکہہ دیتے ہیں، اونوں ٹھنڈ ہے یعنی حالات جیسے بھی ہوں، وہ بے حسی اور غیر ذمہ داری کی ایسی انتہا پر پہنچا ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ آج کل یہی بات اپوزیشن جماعتوں کے لئے کہی جاتی ہے۔ اگلے روز ایک کھانے پر چند احباب کے ساتھ موجود تھا۔ خاکسار کے سوا تقریبا سب ہی مانے جانے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پرو ن لیگ تھے۔ دو تین ایسے جو باقاعدہ مسلم لیگ ن کا حصہ اور سرگرم کارکن ہیں۔ گپ شپ کے دوران ان بے چاروں کو متواتر ن لیگی قیادت کی خاموشی اور غیر فعال رویے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر ایک کایہی شکوہ تھا کہ حکومت تو خیر نالائق ہے ہی، مگر ایسی کمزور ، غیر متحرک اورگئی گزری اپوزیشن بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ شہباز شریف صاحب پر زیادہ تنقید ہوتی رہی۔ مسلم لیگ ن کی داخلی دنیا میں مجھے لگتا ہے ہمارے سابق خادم پنجاب سب سے مطعون شخص ہیں۔ ہم نے تو اپنی گناہ گار آنکھوں اور کانوں سے کسی مسلم لیگی کو نجی محفل میں ان کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔ ہرایک یہی کہتا ہے کہ اس کا لیڈر تو نواز شریف ہے۔ شہباز شریف کی بطور وزیراعلیٰ پرفارمنس کی مسلم لیگی داد ضرور لیتے ہیں، مگر انہیں پسند نہیں کرتے۔ نواز شریف میں لیگی کارکنوں کو خوئے دلنوازی نظر آتی ہے۔ چھوٹے میاں صاحب کو یقینا اس کا علم ہوگا، مگر لگتا ہے انہیں بھی اس حوالے سے ٹھنڈ ہی ہے۔وہ جانتے ہیں کہ جب بھی اقتدار ملا، انہیں ضرور شیئر ملے گا، رہی کارکنوں کی نازبرداری ، اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس محفل میں بھی احباب شہباز شریف پر تنقید کرتے رہے کہ ملک میں اتنے اہم ایشوز ہیں، عدالتوں نے بڑے اہم فیصلے کئے ہیں، جن کی تائیدمیں مسلم لیگی قیادت کو آواز بلند کرنی چاہیے ۔ شہباز شریف صاحب مگر نان ایشوز پر بیان داغ دیتے ہیں، اصل نکتہ پر لب کشائی نہیں کرتے۔ ایک دوست کہنے لگے ،’’ شہباز شریف اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے بھی خود تیار نہیں۔ وہ میڈیا ، کالم نگاروں اور اینکر حضرات سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کی تعریف اور مخالفین کی تنقید کا جواب دیں۔ میڈیا کا حالانکہ یہ کام نہیں۔ان کی ذمہ داری رپورٹ کرنا ہے، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کا مقدمہ لڑنا نہیں۔ ‘‘پندرہ بیس لوگوں کی پوری محفل میںکوئی ایک جھوٹے منہ بھی شہباز شریف کی حمایت میںنہ بولا۔ کسی نے یہ عذر نہیں پیش کیا کہ چھوٹے میاں صاحب بڑے میاں صاحب، ان کی صاحبزادی اور شریف خاندان کی سیاست بچانے کے لئے مفاہمانہ سیاست کر رہے ہیں یا دیکھیں انہوںنے کس ہوشیاری کے ساتھ ڈیل کر کے نواز شریف صاحب کو لندن پہنچا دیا، ممکن ہے صاحبزادی کو بھی باہر نکال لے جائیں۔ خاکسار کا کبھی ن لیگ سے دور دور کا تعلق نہیں رہا، چند ایک نازک لمحات پرمگر سوچا کہ چلیں بحث کی خاطر ہی سہی، شہباز شریف کی حمایت میں کچھ کہہ دیا جائے۔ پھر سوچا کہ پرانا محاورہ ہے ’’ماں سے زیادہ چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے‘‘، ن لیگ کے حامیوں ہی کو حق ہے کہ اپنی پارٹی قیادت کے میرٹ ، ڈی میرٹ پر بات کریں۔ ہمیں اس سے باہر ہی رہنا چاہیے۔ ایک بات البتہ ساتھ بیٹھے احباب سے کہی کہ ن لیگ پرموجود کڑا وقت ٹلا نہیں، بلکہ ابھی مزید گرفتاریاں ہوں گی۔ نیب نے جن چند ریفرنسز کے لئے مواد جمع کرنا تھا، شنید ہے کہ وہ کر لیا گیا ہے، سو مزید اہم لوگ گرفتار ہوں گے، پروڈکشن آرڈرز کے خواہش مندوں کی فہرست طویل ہوتی جائے گی۔ کالم لکھنے بیٹھا تو خبر آ گئی کہ جناب احسن اقبال کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دیکھیں اگلا نمبر کس کا ہوگا؟ کالم لکھنے سے پہلے سوچا تھا کہ سرد موسم اور ٹھنڈی پڑتی سیاست کے ساتھ گرما گرم پکوانوں کا بھی تذکرہ کروں گا۔ سردیوں کی بعض سوغاتیں کمال کی ہیں، کھانے پینے کا مزا بھی اسی موسم میں آتا ہے۔ افسوس کہ کالم کی گنجائش ختم ہوئی۔ اس پران شااللہ کسی اور دن محفل سجائیں گے۔