چونکہ پنچ مڑی کا اجلاس اس کے فوراً بعد ہی ہوا، اسلئے قرار داد میں طے پایا کہ پارٹی کسی اتحاد کے بغیر اپنے بل بوتے پر سیاسی زمین ہموار کرکے 1988کی پہلی والی پوزیشن میں آنے کی کوشش کرے گی۔ مگر متواتر انتخابات ہارنے اور خاص طور پر 2002میں گجرات کے مسلم کش فسادات سے دلبرداشتہ کمیونسٹ پارٹی آ ف انڈیا (مارکسسٹ ) کے لیڈر آنجہانی ہر کشن سنگھ سرجیت نے سونیا گاندھی کو قائل کیاکہ اکیلے چلنے کی حکمت عملی اور سیاسی زمین کی واپسی کی جدو جہد کے بجائے سیکولر اور لبرل فورسز کو اکٹھا کر کے ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کی داغ بیل ڈا ل کر ہی اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی اتحاد حکومت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔اسکے نتیجے میں کانگریس نے 2003کے شملہ اجلاس میں عہد کیا کہ ہم خیال سیکولر اور لبرل طاقتوں کے ایک اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کروایا جائے۔ اس کے نتیجے میں یونائٹڈ پروگر یسو الائینس یعنی یو پی اے وجود میں آیا اور 2004کے انتخابا ت میں بی جے پی کو شکست دیکردس سال تک حکومت کی۔ شملہ سنکلپ یا عہد میں بتایا گیا تھا کہ آرایس ایس کے نظریہ کے توڑ کیلئے پارٹی زمینی سطح سیکولراور لبرل نظریات کے فروغ کیلئے اسی طرح کا ایک نیٹ ورک قائم کریگی، مگر یہ وعدہ و ہ دس سال تک حکومت کرنے کے باوجود بھی پوری نہیں کرسکی۔ 2013کے جے پور اجلاس میں جہاں راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے بطور پیش کیا گیا، میں آئیڈیالوجی کو گول کرکے روزگار، ٹیکنالوجی وغیرہ پر توجہ مرکوزگئی اور بتایا گیا کہ نوجوان نسل کو آئیڈلوجی کے بجائے وسائل سے متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ پارٹی اسٹریکچر کو مضبوط بنانے کے بجائے کانگریس ابھی بھی گاندھی فیملی کو ہی انتخابات میں بھنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیڈران ابھی تک اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ موجودہ دور کا عام ووٹر پریوں اور راجے مہاراجوں کی کہانیاں سن کر پروان نہیں چڑھا ہے۔ بلکہ وہ اب اسی لیڈر کو ترجیح دیتا ہے جو قابل رسائی ہو یا ماضی میں اسکی ہی جیسی زندگی گذار چکا ہو۔ کانگریس اب ایسا بوجھ بن گئی جسے کوئی اتحادی اب شاید ہی اپنے ساتھ رکھنا چا ہے گا۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اسکا عندیہ دے چکی ہے۔ اترپردیش میں تو سونیا گاندھی کی صاحبزادی پریانکاگاندھی نے ضمنی انتخابات میں کمان سنبھالی تھی، مگر پھر بھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ پارٹی کا بڑا طبقہ ابھی بھی راہول گاندھی کو ہی صدر کے عہدے پر دیکھنا چاہتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ نہرو گاندھی خاندان سے باہر پارٹی کی قیادت جانے کے بعد کانگریس متحد نہیں رہ پائے گی اور اس میں کئی گروپ بن جائیں گے۔ گزشتہ چناؤ میں راہول گاندھی خود اپنی امیٹھی سیٹ بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ کانگریس امیٹھی کی سیٹ ہار گئی۔ تجزیہ کار معصوم مراد آبادی کے مطابق گاندھی خاندان جہاں ایک طرف پارٹی کی کمزوری ہے تو وہیں اس کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے۔پارٹی میں کئی اہل لیڈران موجود ہیں، جو قیادت کے دعویدار ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس خاندان کے باہر کسی دوسرے لیڈر کو قیادت ملتے ہی گروپ بندی کا ایسا بازار گرم ہوجائے گا کہ پارٹی کو انتشار سے بچانا مشکل ہوگا۔ یہی حال کچھ پاکستان میں مسلم لیگ کا بھی ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے بجائے بھارت کے انتہائی جنوبی صوبہ میں انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) نے 1906کی مسلم لیگ کی جان نشینی کا حق ادا کیا ہے۔ تقسیم کے بعد مدراس مسلم لیگ کے صدر محمد اسماعیل نے 1948میں کارکنان کو از سر نومجتمع کرکے اسکی داغ بیل ڈالی۔ اس پارٹی میں خاندانی راج کے بجائے لیاقت کے بل پر ہی لیڈرشپ منتخب ہوتی ہے۔ فی الحال 140رکنی اسمبلی میں آئی یو ایم ایل کے 15اراکین اور بھارتی پارلیمان میں چار اراکین ہیں، جن میں دو لوک سبھا اور دو راجیہ سبھا میں ہیں۔ 1980سے یہ کانگریس کی قیادت والے یونائٹڈ ڈیموکرٹیک فرنٹ کا حصہ ہے اور 2017سے اسکے صدر ایم قادر محی الدین ہیں، جن کا تعلق تامل ناڈو سے ہے۔ویسے بھی کیرالا جنوبی ایشیا میں واحد جگہ ہے ، جہاں برطانوی پارلیمانی جمہوریت کی روح اصل میں رواں و دواں ہے، کیونکہ اس صوبے میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران مرکزی لیڈروں کی خوشنودی کے بجائے انتخابات کے ذریعے پارٹی عہدوں تک پہنچتے ہیں اور پارٹی ہائی کمانڈ سے زیادہ اپنے کارکنوں کے سامنے جوابدہ رہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے بھارت کی سب سے بااثر سیاسی جماعت اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ نہ تو وہ خود احتسابی کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرنے کی حالت میں۔ ایک طویل عرصے سے کانگریس قیادت کے سوال پر اندرونی تنازعات کا شکار رہی ہے۔کانگریس پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شروع ہی سے ہی اس تنظیم پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر گاندھی خاندان کی بالادستی رہی۔ جواہر لعل نہرو سے شروع ہونے والے اس سلسلے میں، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سونیا گاندھی اور راہول گاندھی بھی آتے ہیں۔مجموعی طور پر کانگریس کے 13 صدور ایسے تھے جو گاندھی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن جب تک وہ اس عہدے پر فائز رہے تنظیم چلانا، ان کے لیے ایک چیلنج تھا۔ سینیئر صحافی ساگریکا گھوش نے اندرا گاندھی پر ایک کتاب لکھی ہے کا، کہنا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ر اہول گاندھی کو انتخاب ہارنے والے قائد کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کمزور کانگریس کی وجہ سے اپوزیشن بھی کمزور ہے۔انھوں نے کہا: 'کانگریس نے بہت سارے کرشماتی اور قدآور رہنماؤں کو دیکھا ہے جن کی بڑے پیمانے پر اپیل تھی۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ را ہول گاندھی خود امیٹھی کا انتخاب ہار گئے، جو گاندھی خاندان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اگر کانگریس دوبارہ اپنی پرانی ساکھ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے ایسے چہرے کو سامنے رکھنا ہوگا جو عوام میں مقبول ہو۔ کانگریس کی موجودہ تنظیم حزب اختلاف کا کردار بھی ٹھیک طرح سے ادا نہیں کررہی ہے جبکہ ایسے بہت سے معاملات ہیں جن پر کانگریس لڑ سکتی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرح کانگریس کو بھی نئے لوگوں کو آگے لانا چاہیے اور رہمنائی کے لیے پرانے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے، صوبوں میں جہاں کانگریس کے پاس طاقتور اور مقبول مقامی لیڈران ہیں، وہاں اسکی کارکردگی اچھی ہوتی ہے، مگر مجموعی طور پر جہاں ان کو مرکزی لیڈروں کے بل بوتے پر لڑنا پڑتا ہے، وہاں پارٹی کمزور پڑ جاتی ہے۔ بی جے پی کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ انتخابات کے ایجینڈہ کو نریندر مودی مقابل راہول گاندھی کے طور پر ترتیب دیا جائے اور راہول گاندھی کو ایک تعیش پسند، شاہزادے کے روپ میں ابھارا جائے۔ عوام خاص طور پر مڈل کلاس موجودہ دور میں شاہوں اور اشرافیہ سے جن تک اسکی رسائی نہ ہو، بدکتا ہے۔(ختم شد)