یقینی طور پر تاریخ میں پہلی مرتبہ،پنجاب کے کسی وزیراعلیٰ نے،جنوبی پنجاب کا اس قدر معرکۃُ الآراء دورہ کر کے ،ایسے وقیع اور جامع ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی،جو یقینا اس علاقے کی پسماندگی کو دور کرنے اور اُسے خوشحالی اور ترقی کی منزلوں سے آشنا کرنے میں کلیدی کردار کے حامل ہوں گے،صرف ضلع راجن پور کے لیے 14 ارب کے تاریخ ساز ترقیاتی پیکج کا اعلان ہوا،جس میں بالخصوص حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے مزار کی تو سیع اور تزئین و آرائش کا منصوبہ بھی شامل ہے۔اس دورے میں وزیر اعلیٰ پنجاب،حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کے مزار پر از خود بھی حاضر ہوئے،جہاں چادر پوشی اور پھول پیش کرنے کے بعد ، دربار شریف کے ’’سماع خانہ‘‘میں قوالی کا بھی اہتمام تھا،دربار شریف کے روایتی قوال۔۔۔ نے روہی کے مخصوص انداز اور سرائیکی گائیگی کے خاص اَنگ اور آہنگ میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کلام اپنی سُر اور تال کے ساتھ بلند کیا،تو سماں باندھ دیا،یہ عام سی سادہ سی فرشی نشست تھی جس میں شاہ و گدا، امیر و غریب اور افسر و ماتحت سب ایک ساتھ۔۔۔دراصل حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے اسلوبِ تصوّف،طرزِ ز یست،منہجِ حیات اور آپؒ کے افکار و نظریات کا سبق بھی یہی تھا ،خواجہ صاحب ؒ کو سرائیکی زبان کا’’رومی‘‘ہیوم اور ملک الشعرا کہا گیا۔ ان کی’’ہمہ اوستی‘‘فکر سے تصّوف کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ انکی سوچ اور فکر کا راستہ جہاں حُسنِ فطرت کے نظاروں، روہی رُت رنگیلڑ ی کی بہاروں، اُجڑی جھوکوں، ٹیلوں، ویرانوں، جنگلوں، ٹوبھوں، نخلستانوں، صحرائی قافلوں اور روہی کی تہذیب و ثقافت کے خارجی مناظر سے ہوکر گزرتا ہے،وہیں ان کی نظر اپنی قطار سے بچھڑی کونج پر بھی پڑتی،وہ فطرت کے ہر رنگ میں جلوۂ یار کو دیکھتے اور اس کا بر ملا اظہار فرماتے: ہمہ اوست دے بھید نیارے/ہر ہر شے وچ کرن نظارے/جانن وحدت دے ونجارے/اصل تجلی طوری نوں یعنی:’’ہمہ اوست(وحدت الوجود) کے اسرار و رموز عجیب و غریب اور نرالے ہیں، انہیں تو صرف وحدت کے متلاشی (وجودی نظریات رکھنے والے) ہی جان سکتے ہیں، جو ہر چیز میں ذاتِ حق کا جلوہ دیکھتے ہیں۔‘‘ اسی دور ہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب، بالخصوص ایک ہزار سالہ قدیم بستی’’سخی سرور‘‘،جس کی پُر پیچ اور بل کھاتی گلیاں اور پہاڑی ندی کے اونچے کنارے پر واقع،حضرت سید احمد سلطان المعروف حضرت سخی سرورؒ کی خانقاہ اور مزار پر بھی پہنچے،جہاں حاضری کے لیے قدرے مشکل و دشوار سیڑھیاں بھی درمیان میں آتی ہیں ۔۔۔ لیکن یہ زینے،وزیراعلیٰ پنجاب نے،اُسی اہتمام اور اعتماد کے ساتھ سَر کیئے،جیسے اس خطّے کے کسی شناسا اور شناور کو کرنے چاہیں۔ سیکیورٹی اور پروٹوکول کے تقاضے اپنی جگہ۔۔۔ مگر اس دورے میں سردار عثمان بُزدار،نہایت پُراعتماد ،متیقن،مشفق،مہربان۔۔۔ ’’وسیب‘‘کی محبت کے رچاؤ میں رچے ہوئے۔۔۔کہ اگر کوئی کسی طرح گاڑی تک بھی پہنچ گیا ،تو وزیراعلیٰ نے اپنی گاڑی رکوا کر ۔۔۔ بلکہ گاڑی سے اُتر کر اس کی بات محبت و شوق اور توجہ انہماک سے سُنی ۔ موضع’’سخی سرور‘‘ ڈیرہ غازی خان سے 23 کلو میٹر بجانب مغرب واقع ہے،کوہ سلیمان کے دامن میں یہ بستی جو ابتدائی طور پر’’نگاہہ‘‘سے موسوم تھی،حضرت سید احمد سلطانؒ کی تقر یباً1126ء میں تشریف آوری کے سبب، آپکے لقب’’سخی سرور‘‘کے نام سے معروف ہوگئی۔اس خطّے میں جن عظیم المرتبت صوفیاء اور اولو العزم اولیاء کو بہت زیادہ سطوت اور عروج میسر آیا،ان میں ایک نہایت محترم اور معتبر نام حضرت سیّد احمد سلطان رحمۃ اللہ علیہ کا ہے،چھٹی صدی ہجری میں اسلامی اخلاق وتصوف کا اُفق انتہائی روشن وتابناک--- اور دنیائے طریقت ومعرفت کی اولو العزم اور جلیل القدر ہستیوں سے مستنیر اور منور تھا ،چنانچہ حضرت سخی سرورؒ کو اس عہد کے بلند پایہ صوفیاء واتقیا سے بھر پور اکتساب کا موقع میسر آیا ۔آپ چشتی سلسلے میں حضر ت مودود چشتی ؒاور سلسلہ سہروردیہ میں حضرت الشیخ شہا ب الدین سہروریؒ سے براہِ راست فیض یافتہ اور خلافت ونیابت کے اعزاز سے متصف تھے ۔حضرت سخی سرورؒ کے معتقدین اور متوسلین اپنی وارفتگی اور محبت کے سبب بڑی انفرادیت کے حامل ہیں ،جس کا نقطئہ عروج آپ کے سالانہ عرس کے موقع پر قابل دیدہوتا ہے، جب اس پورے خطّے سے عقیدتمندوں کے قافلے،انتہائی خوبصورت، طویل اوردیدہ زیب چادروں اور پرچموں کے ساتھ،آپ کے مزار کا قصد کرتے ہیں ۔اس خطّے میں بزرگوں کی یاد میںاعراس کا انعقاد یقینا بڑی کثرت سے ہے ، تاہم یہ اہتمام زیادہ تر دو روزہ تقریبات ہی پر مشتمل ہوتا ہے ،لاہور میں حضرت داتا گنج بخشؒ کا عرس برصغیر کی بہت بڑی دینی اور روحانی تقریب ہونے کے باوجود---اس کا دورانیہ بھی تین دن سے زیادہ نہ ہے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے عرس کی تقریبات اگرچہ 15روزپر پھیلی ہوئی ہیں ،لیکن اس کا نقطۂ کمال بھی آخری پانچ روزاور پھر ان میںسے بھی 5اور6محرم الحرام ہی اہم ترین ہیں،لیکن اس خطّے میں جس ہستی کے عرس کی تقریبات پورے دو ماہ پر محیط ہیں --- وہ ہمارے ممدوح حضرت الشیخ سیّد احمد سلطان ہیں ، جو اس خطّے میں حضرت سخی سرورؒ کے علاوہ ’’لعلانوالے‘‘ کے نام سے بھی معروف ہیں ۔یہ عرس پندرہ فروری سے لے کر پندرہ اپریل تک جاری رہتا ہے۔ ماضی قریب میں، اس عرس میں حاضری کی بابت پنجاب کے مختلف خطوں کے لیے مختلف ایام مخصوص تھے ،اور بسوں کے اس قدر طویل قافلے ،اس عرس میں شرکت کے لیے ،پنجاب کے دُور افتادہ علاقوں سے روانہ ہوتے، کہ وہاں کے مقامی لوگ ،بعض اوقات ، ذرائع نقل وحمل ہی سے محروم ہوجاتے ۔ 9/11کے بعد پنجاب کے عرسوں اور میلوں کی رونقیں ماند ہونا شروع ہوئیں اورپھر دہشت گردی نے اس رجحان کو مزید تقویت دی ، بالآ خر 03 اپریل 2011ئ، کو حضرت سخی سرورؒ کے مزار پر ہونے والے خود کش بم دھماکے نے اس عرس کے پھیلائو کوبہت زیادہ متاثر کیا ۔ ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مِیلوں میں پھیلے ہوئے، اس عرس کے لیے حفاظتی انتظامات کو سنبھالنا مشکل ہوگیا ۔چنانچہ عرس چند ایام تک محدود کرنے کی مختلف تجاویز زیر غور رہیں ،تاہم آپ کے عقیدت مندوں کی وارفتگی کے راستے میںکوئی چیز حائل نہ ہوسکی،سلطانیوں کے ہاں حضرت سخی سرورؒ کے مزار کی زیارت کو بڑی اہمیت حاصل ہے جو وسطِ فروری میں شروع ہوتی ہے ۔سکھوں کے دَور میں ملتان کے گورنر سلطان ساون مل نے اس سلسلے کو بند کرنے کی بڑی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ آپؒ کے مزار پر ہندئووں کے ایک دیوتا---جبکہ خانقاہ کے شمال مغربی گوشے میں سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کی یاد گار بھی موجود ہے۔بلاشبہ حضرت سخی سرور ؒکے مزار پر مختلف مذاہب کے پیشوائوں کی حاضری، حضر ت سخی سرورؒ کے روادارانہ افکار وتعلیمات کی مقبولیت کا خوبصورت عملی مظہر ہے۔آپ ؒ دنیائے تصوّف وطریقت کی ممتاز اور معتبر ہستی اور آپ کا مزار جنوبی پنجاب کابہت بڑ ا روحانی مرکز ہے ،تاہم یہ امر اپنی جگہ تکلیف دہ ہے کہ آپؒ کا مزار ِاقدس انتہائی گنجان آبادی میں واقع ہونے کے سبب ، اس طرح کشادہ اور وسیع نہ ہے ، جیسا کہ ہونا چاہیے ، تاہم حکومت اپنی مقدور بھر سعی وجد وجہد کو بروئے کار لاتے ہوئے ، زائرین کے لیے سہولتوں کے اہتمام کو یقینی بنانے کے لیے مصروف کار رہتی ہے ۔