عافیت اعتدال ہی میں ہے۔ درجۂ حرارت کا حد سے بڑھنا اور کم ہونا دونوں ہی وبالِ جاں ہیں۔ ہم سنہری دھوپ میںغسل کرتے میدانوں کے رہنے والے ہیں۔ سورج کی کرنوں میں بسی حدت سے ہمارا ازل کا رشتہ ہے،سو ایک حد سے زیادہ ٹھنڈ بھی برداشت نہیں ہوتی۔ یہ سطریں لکھتا ہوں تو پیہم دو روز کے بعد آج دسمبر کے سورج نے ذرا سی رونمائی کی ہے وگرنہ دو دن تو دھند کے بادلوں نے ایک روز پہلے کی ہلکی پھوار نے بغلوں سے ہاتھ نکلنے ہی نہیں دئیے۔ جن ملکوں میں زیادہ ٹھنڈ پڑتی ہے، وہاں گھروں، دفاترو دیگر عمارات کو گرم رکھنے کا مناسب بندوبست ہوتا ہے۔ وسائل لوگوں کی پہنچ میں ہوتے ہیں۔یہاں تو حال یہ ہے کہ ایک گیس سستی تھی سو اَب تو گیس کی بو بھولتی جا رہی ہے۔ ایک وفاقی وزیر صاحب فرماتے ہیں کہ بہت مزے لے لئے گھریلو صارفین نے سستی گیس کے۔ دنیا میں کہیں گھروں میں گیس کنکشن نہیں ہوتے۔ کوئی تو پوچھے کہ جنابِ والا آپ کی ملکیت تھے گیس کے کنوئیں‘ جن سے گھریلو صارفین کو سستی گیس ملتی رہی؟ اسی ملک کے وسائل تھے اور استعمال کرنے والے بھی اسی ملک کے شہری۔ ہم نے تو خیر دنیا نہیں دیکھی لیکن جنہوں نے شہر شہر گیس پہنچائی‘ وہ تو آپ کے بھائی بند تھے‘ ساری دنیا گھومے ہوئے اشرافیہ۔ انہوں نے کیوں گھروں کو گیس کنکشن جاری کئے؟ یعنی عجیب منطق ہے کہ دیگر وسائل گیس سلنڈر، لکڑی، بجلی کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں، یہی اک گیس سستی تھی، وہ بھی نصیبِ دشمناں ہوئی۔ خیر! بات اور طرف نکل گئی، میں تو آپ کو ایک روداد کا شریک بنانا چاہتا تھا۔ ہوا تو ہاتھ میرے ساتھ مگر لطف بھی بڑا آیا۔ وہاں چونکہ ہال میں سردی بہت تھی، اس لئے یہ ابتدائی دو پیراگراف آج کے کالم میں دَر آئے۔ ہوا یہ کہ چند ماہ پیشتر ہمارے دوست مرزا یاسین بیگ نے کہا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم کے آخری داخلے جا رہے ہیں، آپ اردو میں ایک ایم اے کیوں نہیں کرلیتے۔ ایم فل، ڈاکٹریٹ کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی یونیورسٹی میں لیکچر دیا کیجئے گا۔ مشورہ اچھا تھا، سن کر میں نے شیخ چلی والا انڈوں کا ٹوکرا سر پر محسوس کیا۔ اگلے کچھ لمحوں میں تخیل نے انڈوں سے کنٹرولڈ پولٹری شیڈ تک کا پی سی ون بنا کر سامنے رکھ دیا اورہم سمسٹر بہار 2021ء سے ایک مرتبہ پھر ’’ سٹوڈنٹ‘‘ ہوگئے۔ پہلے سمسٹر میں چار پیپر ہیں۔ تاریخ ادب اردو( دو پرچے‘ اول و دوم) اور افسانوی ادب کے بھی دو پرچے اول و دوم۔ ان کورسز کے کوڈ نمبر علی الترتیب 5601سے5604تک تھے۔ ڈاک کے ذریعے رول نمبر سلپ موصول ہوئی۔ ہم نے ایک نظر دیکھا کہ پہلا پرچہ 27 دسمبر کو ہے‘ دوسرا 6جنوری اور رول نمبر سلپ سنبھال کر رکھ دی۔ پہلے پرچے کی ہلکی پھلکی تیاری شروع کردی کہ دوسرے میں تو نو دس دنوں کا وقفہ ہے۔ ادھر بچوں نے ہمارا مذاق بنا لیا۔ یہ زہرا آرہی ہے’’ پاپا! اچھے سے پیپر دینا‘ ہمارا ناک نہ کٹوادینا‘‘۔ شام کو جو ذرا موبائل پر فیس بک دیکھنے کو بیٹھا تو امامہ آکے ڈانٹ رہی ہے ’’ اوہ…یار پاپا آپ کے امتحان سر پر ہیں اور آپ موبائل پر وقت ضائع کر رہے ہیں۔ چلو اٹھا پڑھو جاکر‘‘۔ زینب چونکہ ہاسٹل میں تھی سو اس کی ڈانٹ سے بچا رہا۔ گویا جو جو جملے امتحان کے دنوں میں بچے مجھ سے سنتے رہے‘ وہی سب مجھ پر آزمائے ۔ بہرحال جی ہم نے کورس نمبر 5601تاریخ ادب اردو(اول) کو رٹے لگانے شروع کردئیے۔ بہمنی سلطنت کب قائم ہوئی۔ اس کے آٹھ بادشاہوں کے ادوار میں کون زیادہ ادب نواز تھا، لکھنے والے کون کون تھے۔ گوجری ادب کے سرخیل کون تھے۔ نصیرالدین ہاشمی، حافظ محمود شیرانی اور سلیمان ندوی کا کہنا درست ہے کہ اردو زبان کا آغاز کسی جغرافیائی خطے دکن، پنجاب یا سندھ سے ہوا یا پھر ڈاکٹر مسعود حسین خان اور ڈاکٹر سہیل بخاری کا کہنا ٹھیک ہے کہ اردو کسی خطے کی نہیں بلکہ کسی زبان کی بہن‘ بہو‘ بیٹی ہے۔ سن اور نام مجھے کبھی یاد نہیں رہتے پھر بھی رٹا خوب لگایا۔ستائیس دسمبر کا یخ بستہ دن آگیا، دھند تھی اور برفیلی ہوا۔گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان کاہال تو گویا مردے رکھنے کا سردخانہ بنا ہوا تھا۔ تیسری رَو کی سب سے پہلی نشست پر بیٹھ کر ادھر اُدھر نظریں گھمائیں اور ٹاسٹلجیا کے ساگر میں غوطے کھانے لگا۔ سینتیس برس پہلے، اسی ہال میں بیٹھ کرمیں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ ڈھلتی عمر میں اک بار پھر اسی ہال میں پرچہ دینے بیٹھا تھا۔ اگلے پانچ سات منٹ میں کون کون چہرے یاد نہیں آئے بھلا۔ وہ بھی کیا دن تھے کہ سب ساتھ رہا کرتے تھے ان دنوں کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے جوابی شیٹیں بٹ چکیں اور کچھ دیر بعد پرچہ سامنے آیا تو ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے۔ جیب سے رول نمبر سلپ (اس کے اوپر ڈیٹ شیٹ بھی ہے) نکال کر دیکھی، پرچہ بانٹنے والوں سے کوئی غلطی نہ ہوئی تھی۔ ہوا یہ کہ میں 5601کی تیاری کرتا رہا کہ عموماً بلکہ ہمیشہ پرچے ایک ترتیب سے ہوا کرتے ہیں مگر 27دسمبر کے روز امتحان 5603افسانوی ادب(اول) کا تھا۔ اوسان بحال ہوئے تو سوالنامہ دیکھا۔ نو میں سے پانچ سوالات کا جواب دینے کی فرمائش تھی۔ ناول، افسانے پڑھتے رہنے کا دیرینہ شوق کام آگیا اور یوں جانئے اگلے تین گھنٹے میں ہم نے پانچ مضامین گھسیٹ دئیے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے مقصدیت کے حامل ناول، عبدالحلیم شرر کا بطور ناول نگار مقام، امرائو جان ادا کے بڑا ناول ہونے پر دلائل اوراردو ناول کے ادوار پر جیسا تیسا لکھ دیا۔ مدتوں پہلے پڑھے ہوئے ناول تھے، سب کرداروں کے نام اور جزئیات تو یاد نہ تھیں مگر خاکے ذہن میں تھے۔ سو جو بن پڑا لکھ دیا۔ پہلے پانچ سات منٹ کی گھبراہٹ اور پھر پیہم تین گھنٹے کی یک سوئی، کئی دہائیاں پیچھے جیسے زمانۂ طالب علمی میں پہنچ گیا۔ گیارہ سو الفاظ کا کالم تین نشستوں میں لکھنے والے سہل پسند کو ایک ہی نشست میں یوں جانئے پانچ کالم لکھنے پڑگئے۔ تاہم یادداشت کی آزمائش، سوچ کی یکسوئی اور ناسٹلجیا نے مل کر لطف بہت دیا۔ اب دیکھئے کیا بنتا ہے۔ اگر تو پرچہ دیکھنے والے صاحب بالشتوں سے ماپ کر نمبر دینے والے ہوئے تو انا اللہ ورنہ اوکھے سوکھے چالیس نمبر تو مل ہی جائیں گے۔ ہاں! اس روداد میں آپ کے لئے نصیحت یہ ہے کہ امتحان میں بیٹھنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیا کریں کہ پرچوں کی ترتیب کیا ہے۔