سندھ میں اب بھی دن گرم ہیں مگر رات کو ٹھنڈ کی ہلکی سی لہریں اس صوبے کے غریب انسانوں کو پیغام دیتی ہیں کہ مایوس مت ہوجانا تمہارا موسم آ رہا ہے۔ سندھ میں موسم سرما عوام کا موسم ہے۔ یہ وہ موسم ہے جس میں غریب لوگ میلی سی چادر لپیٹ کر چلتے ہیں۔ جس میں پرانی رلی اوڑھ کر سوجاتے ہیں۔ اگر نیند نہ آئے تو گھاس پھونس کو آگ دیکر رات بھر اپنے ہاتھ پیر تاپ کر انتظار کی کیفیت کوکسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ گرمیوں میں انسان تو کیا چرند اور پرند بھی پناہ مانگتے ہیں۔ جس وقت دن کو لو لگتی ہے اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان آگ میں جل رہا ہے۔ سندھ میں گرم ہوا پر ایک نہیں سیکڑوں اشعار ہیں۔ ایک شعر تو ایاز کہتا ہے: ’’جل رہا ہے جبل/لو دھیرے سے چل‘‘ عربی کی طرح ،سندھی زباں میں بھی ’’جبل‘‘ پہاڑ کوکہتے ہیں۔ کیا آپ اس موسم کا اندازہ بھی کرسکتے ہیں جس موسم سے بچنے کی دعا پہاڑ بھی مانگے۔ پہاڑ گرم ہواؤں کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ یہ صرف انسان کے سینے ہیں جو اس سردی کے تیر برداشت کر لیتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ جس فطرتی موسم میں رہتے ہیں وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ سندھ کے لوگ ہزاروں برسوں سے اس دھرتی پر آباد ہیں مگر وہ ہر بار موسم گرما کو ایک عذاب کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ سندھ میں موسم گرما ایک اذیت ہوتی ہے۔ ایک امتحان ہوتی ہے۔ مگر وہ اذیت اور امتحان لوگ یہ سوچ کر برداشت کرتے ہیں کہ اگر موسم گرم نہیں ہوگا تو کھیت کیسے پکیں گے؟ درخت میٹھے پھل کس طرح دینگے؟ زندگی کے لیے گرمی بھی ضروری ہے۔ یہ سوچ کر وہ جسم کا جلنا برداشت کر لیتے ہیں۔ موسم گرما میں سندھ کے لوگوں کو یہ احساس بھی حوصلہ دیتا ہے کہ اگر آج آسمان آگ برساتا ہے تو کل موسم سرما بھی آئے گا۔ اور جب سردی آتی ہے تو اہلیان سندھ اپنے سارے دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ وہ سردیوں کا انتظار آٹھ ماہ سے کرتے ہیں۔ کیوں کہ سندھ میں موسم سرمامشکل سے چار ماہ کا مہمان ہوتا ہے مگر ان چار ماہ میں سندھ کے لوگوں کو جس قدر لطف آتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔یہ وہ موسم ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کے خوشی خوشی مہمان بنتے ہیں۔ یہ وہ موسم ہے جس میں لوگ رشتے جوڑتے ہیں۔ وہ وہ موسم ہے جس میں لوگ ایک ساری ساری رات ایک دوسرے کی باتیں سنتے ہیں۔ اس ملک میں بہت سارے لوگ شکار کے بہت شوقین ہوتے ہیں اور سندھ میں شکار کا موسم وڈیروں کے لیے سیاسی مفادات کا موسم کس طرح بنتا ہے؟ اس سوال کا تفصیلی جواب میں ہم کسی اور کالم میں لکھیں گے۔ اس وقت تو صرف موسم سرما میں آنے والے پرندوں کے شکار کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ شکار ان لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتا۔ ان کے لیے شکار ایک شغل ہوتا ہے۔ان کا شوق ان پرندوں کے لیے بھی پیغام اجل بن جاتا ہے جو حلال نہیں سمجھتے جاتے۔ لوگ ان پرندوں کو بھی مارتے ہیں جن کا گوشت لذیذ نہیں ہوتا۔ کس قدر خوبصورت پرندے ہوتے ہیں جنہیں من موجی شکاری، شکار کرتے ہیں۔راقم الحروف گوشت کا بہت زیادہ شوقین تو نہیں ہے مگر میں سبزی خور بھی نہیں ہوں مگر میں کسی خوبصورت پرندے کو شکار کرکے اپنے پیٹ کی بھوک نہیں بجھا سکتا۔ دنیا میں جو لوگ پرندوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی انسانوں کی طرح اپنے رشتوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ جب سائیبریا میں سخت سردی آتی ہے وہ گرم پانیوں کی طرف محوپرواز ہوتے ہیں مگر ان واپس جاکر اپنے پیاروں سے ملنا ہوتا ہے۔اس لیے سندھ کے ایک بہت بڑے شاعر نے لکھا ہے: ’’کونج کو مت مار/شکاری/کونج کومت مار/گر تم باز نہیں آؤ گے پھر/جوڑی جوڑی مار/شکاری /تنہا کونج نہ مار‘‘ میں مانتا ہوں کہ یہ شاعرانہ باتیں ہیں مگر ان باتوں میں زندگی کا حسن ہے۔ اگر ہم ان باتوں کو فراموش کر دینگے تو ہم اس حسن سے محروم ہوجائیں گے جس حسن کے بارے میں شاہ لطیف نے لکھا ہے: ’’لوگ سب نہیں خوبصورت/پرندے سارے نہ ہنس/کسی کسی انساں سے/آئے خوشبو بہار کی‘‘ ہاں! یہ سچ ہے کہ کسی کسی انسان سے بہار کی خوشبو آتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہر پرندے سے خوشبوئے بہار آتی ہے۔ وہ پرندے اگر پردیسی ہوں تو پھر ان کا تحفظ کرنا ہمارا فرض ہونا چاہئیے۔ مگر لوگ سردیوں کی جلتی ہوئی آگ میں سب راکھ کردیتے ہیں۔ سندھ میں موسم سرما ،موسم بہار کی طرح ہوتا ہے مگر ہم کو یہ احساس ہونا چاہئیے کہ اس ملک میں ہر جگہ موسم سرما کا اثر ایک سا نہیں ہوتا۔اگر وادی سندھ میں موسم مزے کا موسم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دور پہاڑوں کی چوٹیوں کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لیے مذکورہ موسم خوشی اور محبت کا موسم ہے۔ہم ان لوگوں کی بات کرتے ہیں جن کے بہت چھوٹے مکان ہوتے ہیں۔ وہ مکان سردیوں میں سفید برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ ان مکانوں سے دھیرے دھیرے دھواں نکلتا رہتا ہے۔اگر ان مکانوں کا دروازہ کھول کر کوئی دیکھتا ہے تو اس کوحد نظر تک برف ہی برف نظر آتی ہے۔ سفید چادر جیسی برف۔ جس کے نیچے زندگی بڑی مشکل سے سانس لیتی ہے۔ اس کالم کابنیادی مقصد یہ ہے کہ موسم سرما کہیں سکھ کا موسم ہوتا اور کہیں یہ موسم دکھ کا سبب بنتا ہے۔ میدانی علاقوں میں بسنے والے موسم سرما کے مزے لیتے ہوئے ان ہم وطنوں کو فراموش نہ کریں؛ جن کے لیے یہ موسم بہت سارے مسائل کا باعث بھی ہوتا ہے ۔فیض احمد فیض نے لکھا ہے: ’’بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی‘‘ کاش! ہم اس دیس کے درد کا احساس اپنے دل میں بسائیں اور ان کے لیے بھی دل میں اپنائیت محسوس کریں جن کے لیے ہمارا سکھی موسم دکھی موسم ہے۔