وہ اپنے دوستوں اور دلداروں کے شانوں پر اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اب زیر زمین یہ ان کا آخری آشیانہ ہے۔مجھے آج بھی یاد ہے 1972ء میں قوم کے نام اپنے خطاب میں پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لائیڈمنسٹریٹر اور صدر ذوالفقار علی بھٹو اعلان کر رہے تھے کہ وہ اپنے خاندان کے کسی اور فرد کو نہیں صرف اپنے ٹیلینٹڈ کزن کو ایک اہم ذمہ داریاں سونپ رہے ہیں۔ یہ بھٹو قبیلے کے سردرار نبی بخش بھٹو کے صاحبزادے ممتاز علی بھٹو تھے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ 2اپریل 1979ء کی دوپہر چند فو جی ا فسرسردار نبی بخش بھٹو کے گھر جا کر انہیں مطلع کرتے ہیں کہ بھٹو کی ممکنہ سزائے موت کے بعد وہ تدفین کیلئے جگہ کی نشاندہی کر دیں۔ یہ سن کر سردار نبی بخش بھٹو سناٹے میں آگئے انہیں اس لمحے یقین ہوگیا کہ فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیاہے۔ 88سال قبل نبی بخش بھٹو کے گھر جس بچے نے جنم لیا اس کا نام ممتاز علی رکھا گیا۔ ممتاز بھٹو بڑے کمال کے انسان تھے، انہوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری۔ سیاسی میدان میں وہ بڑے نشیب و فراز سے گزرے۔ وہ اس وقت ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر سامنے آئے جب سندھ اسمبلی میں لینگویج بل پیش کیا گیا۔ وہ اس وقت سندھ کے اسٹرونگ مین تھے۔ جب بھٹو نے انہیں سندھ کی حکمرانی سونپی تو وہ بڑے سجیلے جوان تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے 1972ء میں لینگویج بل سندھ اسمبلی میں پیش کر کے خود کو متنازعہ کیوں بنایاتھا۔ انہوں نے بلا تذبذب جواب دیا’’سندھ سندھیوں کا ہے، مانتا ہوں مہاجروں نے آزادی میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ ہم اس حوالے سے ان کی قربانیوں کے متعرف ہیں لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ وہ بیوروکریسی میں آئے کاروبار میں آگے بڑھے۔ تمام اداروں میں انہوں نے مختلف پوزیشن سنبھالی۔ وہ حکمرانی کے ایوانوں میں بھی آئے ہم نے کبھی نہیں کہا کہ یہ غلط ہے لیکن یہ تو مانیں کہ یہ دھرتی سندھیوں کی ہے۔ یہ تاریخ کی سچائی ہے۔ ہماری تاریخ بہت قدیم ہے۔ میرا سوال تھا کبھی آپ نے سوچا کہ سندھ میں اردو اسپیکنگ آبادی آپکی متعصبانہ پالیسیوں کے سبب آپ سے نالاں ہے۔ کہنے لگے میرے بیشتر دوست اردو اسپیکنگ ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ، کسی کی حق تلفی نہیں ہو نی چاہیے۔ لیکن کسی بھی علاقے کے حوالے سے وہاں رہنے والوں کی جو شناخت ہو وہ قائم رہنی چاہیے۔ ممتاز علی بھٹو نے بڑی پر جوش زندگی گزاری، رومانویت انکے مزاج کا حصہ تھی ،تعلیم شہروں میں پائی لیکن انہیں گاؤں میں رہنا پسند تھا۔ کہتے تھے گاؤں کی ہر چیز خالص ہوتی ہے اور اس میں بناوٹ کا شائبہ نہیں ہوتا، اس میںمحبت پیا ر اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا کلچر ہوتاہے۔ شہروں کا اپنا حسن ہے، یہاں زندگی متحرک ہے۔ اس لئے آپ دیکھیں میں نے شہروں میں رہ کر تعلیم حاصل کی آکسفورڈ سے گریجویشن کیا ۔ ان کے مطالعے کا شوق شروع سے تھا۔ تاریخ، سیاسیات، معاشیات اورانٹرنیشنل ریلیشن سردار بھٹو کے پسندیدہ مضامین تھے۔ کراچی میں وہ کلفٹن پر سابق گورنر جناب کمال اصفر کے پڑوسی رہے۔ صوفیائے کرام سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ انہوں نے شکار گاہ بھی بنائی ہوئی تھی۔ کتوں کی نسلوں پر وہ گھنٹوں بات کر سکتے تھے۔ ان کے پاس اعلیٰ نسل کے کتوں کی لاجواب جوڑیاں تھیں۔ مزے مزے کے کھانوں کے شوقین تھے۔ ممتاز بھٹو یوں تو ایک مجلسی انسان تھے لیکن سیاست دان ہونے کے باوجود دوستیوں میں بڑے محتاط اور سلیکٹو تھے۔ محبتوں کا تذکرہ آیا تو کہنے لگے کہ خوبصورت چیز کس کو اچھی نہیں لگتی۔ یہ سچل سرمست اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کی سرزمین ہے جن کا پیغام ہی محبت عجز و انکساری ہے۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج میں دھیماپن آگیا تھا لیکن مجھے سردار بھٹو کا جوبن بھی یاد ہے۔ پی این ایس بلڈنگ کے ٹاپ فلور پر ان کی قہقہے اور دلچسپیاں۔ وہ بڑے سخت ایڈمنسٹریٹر تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا کوئی ایسی محبت جو بھول نہ پائے ہو ں۔ وہ مسکرا کر رہ گئے۔ بابا آپ نہ جانے کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ کچھ باتیں پردے میں بھی رہنے دو۔ شادی سے متعلق سوال پر کہنے لگے پہلی شادی 33سال چلی، دوسری 10سال اور تیسری کو کم و بیش 9سال ہو گئے۔ میں نے پوچھا خود رک گئے یا حالات نے اجازت نہیں دی۔میں نے پوچھا ذوالفقارعلی بھٹو کو آپ کس پائے کا لیڈر سمجھتے ہیں۔ کہنے لگے بھٹو کے کیا کہنے وہ جینئیس تھے۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیداہوتے ہی۔ وہ حقیقی معنوں میں میرے استاد تھے۔ میرے گرو تھے ۔ بھٹو دور تک دیکھ سکتے تھے۔ ہاں ان سے غلطیاں بھی ہوئیں ان میں بشری کمزوریاں بھی تھیں۔ ۔ انہوں نے قوم کے لئے بہت سے کارنامے انجام دئیے۔ انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی لیکن انہیں پھانسی دینے والوں نے ملک پر بڑا ظلم کیا۔ ایک سوال پر کہ آپ پر یہ الزام لگتا ہے کہ آپ نے آخری دنوں میں بھٹو کا ساتھ نہیں دیا۔ کیا آپ خوف زدہ ہو گئے تھے۔ کہنے لگے ہر گز نہیں ، میں تو خود بھی جیل میں تھا ،بھٹو کے پھانسی سے 20دن پہلے رہا ہوا تھا۔ آخری وقت تک جیل کے دروازے پر رہا جس کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا کھٹکھٹایا۔ میں بالواسطہ طور پر روائیداد خان کے ذریعے ضیاء الحق کو پیغام بجھوایا تھا لیکن وہ فیصلہ کر چکے تھے۔ میں بعد میں بینظیر کے ساتھ بھی چلا لیکن جب مجھے اندازہ ہواکے وہ اقتدار کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں تو میں دلبرداشتہ ہو کر ان سے الگ ہو گیا۔ کہنے لگے ضروری نہیں ہوتا کہ ہم جو چاہیں وہ کر بھی پائیں۔ میں تو آپ صحافیوں کیلئے لیاری میں زمین کو مفت مختص کرنا چاہتا تھاپھر بھی میں نے بیوروکریسی کو پلاٹوں کی کم سے کم قیمت رکھنے پر زور دیا۔ یہ میں نے کوئی احسان نہیں کیا یہ آپ لوگوں کا حق تھا۔ میں نے نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن ان کی اپنی ترجیحات تھیں۔ ممتاز بھٹو نے پرجوش زندگی گزاری۔ زندگی کا میلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے ۔ اب وہ اس میلے کو چھوڑ کر سب کو اداس کر گئے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔