صبح سویرے کا وقت تھاکراچی کے قلب میں واقع راجا غضنفر علی خان روڈصدر کے فلیٹوں کے سامنے پولیس کی گاڑیاں آکر رکیں ، چاق و چوبند پولیس اہلکار نیچے اترے اورسامنے فلیٹوں کی جانب چل پڑے،ڈی ایس پی صاحب نے فلیٹوں کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر واقع صاف ستھرے فلیٹ کے دروازے سے لگی اطلاعاتی گھنٹی کے بٹن پر انگشت شہادت رکھ دی ، اندر کہیں جا کر گھنٹی نے مترنم سا شور مچایا اورگھر سے گول مٹول سا لڑکا منہ بناتا ہوا پاؤں میں چپل ڈالے باہر آگیا ،دروازہ کھولا تو سامنے باوردی پولیس اہلکار تھے ، ڈی ایس پی نے نرم لہجے میں کہا کہ شاہ صاحب کو اطلاع دے دیں ،لڑکا الٹے قدموں لوٹا اور اپنے والد صاحب کے پاس آگیااسے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ بیٹے کا چہرہ پڑھ کرباپ سمجھ گیا تھا کہ کوئی غیر معمولی بات ہے بیٹے نے بتایا ’’ابو جان ! پولیس والے آئے ہیں ‘‘۔ ’’اچھا ۔۔۔انہیں اندر لاؤ بٹھاؤ‘‘شاہ صاحب نے جواب دیا ان کا صاحبزادہ واپس پلٹا اور پولیس والوں کو اندر لا کر مہمان خانے میں بٹھا دیا، تھوڑی دیر بعد شاہ صاحب بیٹھک میں السلام علیکم کہتے ہوئے داخل ہوئے ، پولیس والے احتراماًکھڑے ہوگئے ، ڈی ایس پی صاحب نے سر سے ٹوپی اتارتے ہوئے نرمی سے کہا ’’شاہ صاحب ! آپ کے وارنٹ ہیں ‘‘ شاہ صاحب نے ہنکارہ بھرا اورکہا’’اچھا !اجازت دیں میںذرا بیگ بنا لوں ‘‘یہ کہہ کر شاہ صاحب نے صاحبزادے سے کہا بھئی ! مہمانوں کے لئے چائے ناشتہ لاؤ‘‘ پولیس والے منع کرتے رہ گئے لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شاہ صاحب کے گھر آئے اور یوں ہی چلا جائے ، پولیس والوںکے لئے چائے ناشتہ لایاگیاوہ شرمندہ شرمند ہ سے چائے سڑکانے لگے جب تک شاہ صاحب کی اہلیہ نے بڑبڑاتے ہوئے بیگ میں پاندان، ادویات اور دیگر ضروری چیزیں رکھنا شروع کردیں ، اِدھر بیگ تیار ہوا اُدھر پولیس والے ناشتے سے فارغ ہوگئے ، شاہ صاحب سب سے ملے بچوں کو پیار کیا خبردار کیا کہ امی جان کو تنگ نہ کرنا او ر پولیس والوں کے پاس پہنچ گے ’’چلیں جی بسم اللہ‘‘شاہ صاحب عمامہ درست کرتے ہوئے پولیس والوں کے ساتھ سیڑھیوں سے نیچے اترے اورروانہ ہوگئے ۔لیجئے جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی گرفتار ہوگئے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب جمعیت علماء پاکستان ایک بڑی جماعت تھی۔ نورانی صاحب کی ایک پکار پر کراچی کی سڑکیں لوگوں سے بھر جاتیں لیکن نہیں وہ تعمیری سیاست کے داعی تھے تخریب کو دور سے شیطان کی طرح کنکریاں مارتے تھے ،جانتے تھے کہ ہماری سیاست میں جیل کا کھیل لازما کھیلنا پڑتا ہے اس راہ پرخار میں جیل میں ماڑی کی ملاقاتیں آتی ہی آتی ہیں یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری عمران خان صاحب بھی اسی راہ کے راہی ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ ان کے لئے ہمیشہ ہی سرخ دبیزقالین بچھا رہے ۔وہ تو خود کھلاڑی رہے ہیں ان سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ ہر بار وکٹری اسٹینڈ پر جگہ نہیں ملتی۔ اوکھا سوکھا وقت آتارہتا ہے ان پر بھی مشکل وقت ہے جس کا سامنا انہیں قانون پسند اصولی اور بہادر رہنما کی طرح کرنا چاہئے لیکن وہ جس طرح عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں اس سے ان کی شخصیت سے وقاروتمکنت یوں چھٹ رہا ہے جیسے پت جھڑ میں درختوں سے پتے،پھر زمان پارک کو انہوں نے جس طرح ’’نائن زیرو‘‘ میں بدلا وہ حیران کن ہی افسوس ناک بھی ہے ۔ الطاف حسین بھی کبھی کراچی حیدرآباد کے عوام کے دلوں کی دھڑکن تھے ان کی رہائش گاہ’’نائن زیرو‘‘ سے زیادہ محفوظ مقام کراچی میں دوسرا نہ تھا۔نائن زیرو جانے والی ہر گلی پر کارکنوں کی پکٹ، رکاوٹیں ، فولادی گیٹ اور مسلح کارکنوں کا گشت لیکن یہ سب دھرا کا دھرا رہ گیا انہیں نائن زیرو چھوڑ کر نو دو گیارہ ہونا پڑا،یہ سب ماضی بعید نہیں انہوں نے سب دیکھ رکھا ہے پھر وہ تشدد کی راہ پر اپنی سیاسی عمرمختصر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟سترہ مارچ کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں ان کے ساتھ لاہور سے آنے والے کارکنوں نے مجھے اسی متشدد ایم کیو ایم کی یاد دلادی ،جلتی بلتی موٹرسائیکلیں،سرکاری گاڑیوں پر ڈنڈوں سے حملے ، پتھراؤ،کیا یہ سب کپتان کی آنکھوں سے اوجھل تھا؟ پھر انہوں نے انہیں تشدد سے روکنے کے لئے کوئی آڈیو،وڈیو پیغام کیوں نہ دیا ؟انہیں کیوں نہ روکا؟ مانا کہ یہ عمران خان کے لئے مشکل وقت ہے لیکن مشکلوں کی بھٹی ہی سے لیڈر کندن بنتا ہے وہ اپنے معاصر سیاستدانوں کو دیکھ لیں،دور نہ جائیں آصف علی زرداری کو ہی لے لیں پندرہ سال جیل کاٹی لیکن کیا کبھی انہوں نے اس طرح کا رویہ اختیار کیا؟ان کے دور حکومت میں خواجہ آصف، سعد رفیق،رانا ثناء اللہ اور مریم نواز سمیت کتنے رہنما گرفتار کئے گئے کیا کہیں پولیس والوں کی وردی پر ہاتھ ڈالا گیا ؟ ان کی ساری حیاتی یورپ میں گزری ہے جہاں کی قانون پسندی کی مثالیں دیتے وہ نہیں تھکتے کیاوہاںانہوں نے کہیں کسی کو یوں عدلیہ قانون کے ساتھ ایسا برتاؤکرتا دیکھا ،اورپھر ا ن کا اپنا عمل کیاہے ؟ حال یہ ہے کہ عدالتیں بلاتی ہیں اوریہ کبھی طبی بنیادوں پر استثنیٰ لیتے ہیں او ر کبھی سیکیورٹی کے خدشے کو بنیاد بناکر پیش نہیں ہوتے عدالتیں مسلسل تحمل کا اظہار کر رہی ہیںجو ایک آدھ وارنٹ جاری بھی ہوا تو نتیجہ کیا نکلاتعمیل کرانے کے لئے جانے والے پولیس اہلکاروں کے سر سلامت رہے نہ وردیاں ، اس روز وہی مناظرتھے جو ہم کبھی عزیزآباد کراچی میں ایم کیو ایم کے محفوظ مرکز پر دیکھتے تھے۔ کاش یہ سب نہ ہوتالیکن افسوس کہ ایسا ہی ہوا ۔عمران خان نے زمان پارک میں کارکنوں کو ڈھال بنا کر لاہور میں اپنی منزل دو ر کردی ۔جب اس راہ پر الطاف حسین کو کچھ نہ ملا تو انہیں کیا ملے گا الطاف حسین بھی بھٹک گئے تھے اور عمران خان بھی بھٹک گئے ہیں!!