جرم و سزا کی دنیا ابتدائے آفرینش سے چلی آرہی ہے۔ انسانی تہذیب میں ہمیشہ ایسے جرم پر سزا دی جاتی رہی ہے، جس کا تعلق معاشرہ سے ہو۔ اسی لئے دنیا کی تمام تہذیبوں اور معاشروں میں یہ سزائیں کھلے عام دی جاتی تھیں۔ فرد جرم سے لے کر اعلانِ سزا تک، سارے کا سارا عدالتی، پنچائتی یا جرگے کا عمل لوگوں کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح سرانجام دیا جاتا تھا اور آج بھی ایسے ہی ہے۔ جرم ہمیشہ قابلِ تعزیر نا قابلِ دست اندازیٔ پولیس اس وقت ہوتا ہے جب یہ دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان کسی مروجہ قانون، ضابطۂ اخلاق یا اصولِ زندگی کی خلاف ورزی میں کیا جائے۔ چھوٹے سے جھوٹ یا غلط بیانی سے لے کر قتل اور فساد تک جرائم کی ایک لمبی فہرست جو انسانی تاریخ نے مرتب کی ہے۔ جرم اس وقت ہی جرم بنتا ہے جب دو یا دو سے زیادہ افراد کے مابین قانون کی خلاف ورزی ہو، اس جرم کے تعین سے لے کر سزا کے اعلان تک ،علی الاعلان گواہوں کی پیشی کا تقاضا کرتا ہے۔ جرم و سزا کے کسی ایک مرحلے پر بھی کوئی چیز، عمل یا طریقِ کار خفیہ نہیں ہوتا ۔ یہ طرز عمل دنیا کے قدیم معاشرے میں بھی صدیوں سے قائم تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ تمام عدالتیں، کھلی عدالتیں کہلاتی ہیں جن کی کارروائی ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ مجرم، گواہان، استغاثہ، جج سب کے سب کسی پردے میں چھپے ہوئے نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ کسی بھی سزا کے اعلان کے بعد اس پر عمل درآمد بھی کوئی پوشیدہ عمل نہیں ہے۔ لوگوں کو سب کے سامنے جیل بھیجا جاتا ہے۔ لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے پاکستان میں ایک طبقے نے جدید مغربی سیکولر، لبرل طرز زندگی سے متاثر ہوکرپہلے تو پھانسی کی سزا کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی اور اسے ایک غیر انسانی فعل قرار دیا۔ حیرت ہے کہ جس شخص کویہ سزا دی جا رہی ہوتی ہے، اس نے جو جرم کیا ہوتاہے وہ انسانیت کے منہ پر ایک دھبے سے کم نہیں ہوتا، مثلاً قتل، جنسی زیادتی، بچوں پر جبری جنسی ظلم وغیرہ وغیرہ۔ گذشتہ چند برس سے پھانسی کی سزا کے خلاف آواز اٹھانے والے ’’انسانی حقوق‘‘ کے یہ نام نہاد علمبردار، عوام کے ایک مطالبے پر اسوقت اچانک بھڑک اٹھے جب قصور میں ’’زینب‘‘ کے ساتھ زیادتی اور قتل کے مجرم کا عوام نے سرعام پھانسی کا مطالبہ کیا۔ ان لوگوں میں دو حکومتی وزراء فواد چودھری اور شیریں مزاری کی ’’رگِ انسانیت‘‘ اس مجرم کو سرعام پھانسی نہ دینے کے دفاع میں پھڑک اٹھی، جس نے ننھی زینب کے ساتھ موت سے بھی زیادہ بہیمانہ سلوک کیا تھا۔ کوئی تھوڑی سی انسانیت اور سینے میں ماں یا باپ کا دل رکھنے والا شخص اگر چند لمحوں کے لئے بھی اس کیفیت کا تصور کرلے کہ جب ننھی زینب اس قاتل کے سامنے رحم کی بھیک مانگ رہی ہوگی ،تو اس کی کئی مہینوں کی نیندیں حرام ہو جائیں۔ لیکن اس کی سر عام پھانسی کی مخالفت کرنے والے نہ جانے کس دل گردے کے بنے ہوئے ہیں۔ آج ایک دفعہ پھر پوری قوم ایک ’’اذیت ناک کیفیت‘‘ اور ’’درد وکرب‘‘ سے گذر رہی ہے۔ ایک شاہراہ عام پر ایک عورت اپنی بچیوں کے سامنے گھسیٹی جاتی ہے اور موٹروے کے ارد گرد مضبوط جالیوں کو کاٹا جاتا ہے اور رات کے اندھیرے میں اسے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک لمحے کو اپنی روح کو اس ماں کے وجود میں رکھ کر محسوس کریں کہ وہ اپنی ہی نظروں میں کس ذلت و رسوائی سے گذری ہوگی، ایسے لمحوں میں تو درندگی کی اذیت بھی اس شرمندگی کے کرب کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ بچیاں جن کے سامنے ان کی محبتوں کی گود تشدد کا شکار ہورہی ہوگی اور وہ صرف بے بسی اور خوف میں شاید بلند آواز سے چیخ بھی نہ سکی ہوں۔ تھر تھر کانپنے اور آنکھوں سے آنسو بہانے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ ہی نہ ہوگا۔ پوری قوم اس کرب میں ہے۔ مجرم کا ابھی تک کسی کو علم نہیں۔ لیکن اس کو سرعام پھانسی نہ دینے کے وکیل ابھی سے اپنی زبانیں کھول رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے زینب کے قاتل کو عبرت کا نشان بنانے نہیں دیا تھا۔ زینب کے قاتل کو پھانسی دیتے وقت عوام یہ مثال دیتے تھے کہ یہ ہماری ہوش کی بات ہے کہ ضیاء الحق شہید کے زمانے میں ایک ’’پپو‘‘ نامی بچہ اغوا ہوا تھا، جس کو زیادتی کے بعد قتل کر دیاگیا تھا۔ اس کے قاتلوں کو اس جگہ پر سرعام پھانسی دی گئی تھی، جہاں آج کل فیروز پر روڈ پر ’’ٹولنٹن مارکیٹ‘‘ واقع ہے۔ میں خود یونیورسٹی ہاسٹل سے یہ منظر دیکھنے کے لئے آیا تھا۔ لاکھوں کا ہجوم تھا اور ان میں کوئی ایک بھی تماش بین نظر نہیں آتا تھا، ہر کسی کے ہونٹوں پر توبہ استغفار جاری تھی اور اکثر ہاتھ جوڑ کر آسمانوں کی جانب بلند کررہے تھے۔ اس کے بعد سے پنجاب نہیں بلکہ پورے پاکستان کے کرائم چارٹ کو نکال کر دیکھ لیں، آپ کو کم از کم بچوں سے زیادتی اور قتل کا کیس مدتوں تک نظر نہیں آئے گا۔ زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کے جواز میں جب اس واقعہ کو دلیل بنا کر پیش کیا جاتا تھا، تو یہ لوگ گزگز بھر کی زبانیں نکال کر کہتے تھے کہ یہ ایک ’’آمر‘‘ کا فیصلہ تھا، جسے ہم نہیں مانتے۔ ان لوگوں کا ایک رویہ بن چکا ہے کہ جس اسلامی قانون یا اسلامی ’’تصورِ سزا و جزا‘‘ کا مذاق اڑانا ہو، اسے ضیاء الحق کے کھاتے میں ڈال کر بحث کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں علم ہے، کہ ان میں سے کوئی شخص اسلام اور سید الانبیاء ﷺ کی سنت کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ یہ بزدل لوگ کبھی ضیاء الحق اور کبھی مولوی کے کھاتے میں ڈال کر اپنا مقصد پورا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی کور علمی اور حقائق سے لاعلمی تو مسلم ہے۔ ان بے خبر لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ سید الانبیائ، رحمتہ للعالمین، جنہیں قرآن پاک میں سورۃ توبہ میں رئوف و رحیم کے القابات سے اللہ نے پکارا ہے، ان کی سنت یہ ہے کہ ان کے دور میں ہر سزا سرعام دی جاتی تھی، خواہ وہ کوڑے لگانا تھا، ہاتھ کاٹنا، یا سنگسار کرنا۔ یہ تمام سزائیں صحابہ کرام ؓکی موجودگی میں مجمع عام میں دی گئیں۔ سزائوں اور حدود کا تعین تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات نے قرآن پاک میں کردیا تھا اور سید الانبیاء ﷺ نے ان کے نفاذ کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ ہر سزا سرعام ہو گی۔ اللہ نے قرآنِ پاک میں قتل کے جرم کے بدلے قاتل کو قتل کرنے کے بارے میں فرمایا، ’’اے عقل رکھنے والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی (کا سامان) ہے تاکہ تم (اس کی خلاف ورزی) سے بچو ‘‘ (البقرہ: 179)۔ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قتل کے بدلے قتل کو معاشرے کی زندگی قرار دیا اور اس سزا کو میرے آقا ؐ نے سرعام نافذ کیا۔ لیکن معاملہ جب قتل سے بڑھ گیا، یعنی زنا بالجبر، بیت المال کی چوری، حرابہ اور فساد فی الارض کی صورت جرم اکھٹے ہوگئے تو اللہ کے رسولؐ نے سزائوں کو مزید سخت کردیا اور سرعام ان کا اطلاق بھی کیا۔ مشہور واقعہ ہے کہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ مسلمان ہوئے اور مدینہ میں آکر بیمار ہوگئے، آپؐ نے انہیں مدینہ سے باہر بھیجا جہاں بیت المال کے اونٹ چرائے جاتے تھے۔ وہ جب ذرا صحت مند ہوئے تو انہیں نے اونٹوں کی حفاظت پر مامور ’’حضرت یسارؓ ‘‘ کی آنکھیں پھوڑ کر قتل کر دیا اور بیت المال کے اونٹ چوری کر کے فرار ہو گئے۔ رسول اکرم ؐ نے کرزابن جابر الفہری کو سریہ پر روانہ کیا۔ جب ان مجرموں کو پکڑ کر آپؐ کے سامنے لایا گیا، تو آپؐ نے ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمت میں کاٹ کر ریگستان میں ڈالنے کو کہا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک خاک چاٹ رہا تھا، یہاں تک کہ سب مرگئے (جامع ترمذی)۔ یہ رـحمتہ للعالمین کا انصاف ہے اور اس کے نفاذ کا طریق کار ہے۔ وہ لوگ جو معاشرے کا ناسور ہیں، ان کو ایسے ہی خوفناک انجام تک پہنچانا چاہیے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اور سزا کو خوف بھی قائم ہو۔ سزا کا خوف صرف سرعام سزا کے نفاذ سے ہی ممکن ہے جو سنت رسولؐ ہے۔