اسلام آباد(خبرنگار خصوصی)سپریم کورٹ میں سینٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل، عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر ریفرنس پر اپنی رائے محفوظ کر لی ہے ۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اب محفوظ شدہ رائے سے صدر مملکت کو باقاعدہ طور پر آگاہ کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے رائے جلد دینے کی استدعا کی۔جمعرات کو معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ اور متناسب نمائندگی کا معاملہ صدر نے نہیں اٹھایا،ہمیں سیاسی اتحادات سے کیا لینا دینا،ہم نے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات تک محدود رہنا ہے ،ہم اپنی حد سے باہر نہیں جائینگے ۔پارلیمنٹ اگر بل سے متفق ہے تو پاس کرے ورنہ مسترد کردے ۔یہ کسی ایک پارٹی کا معاملہ نہیں،تمام سیاسی پارٹیاں ایسا چاہتی ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ بدعنوان سرگرمیاں روکنے کا مقصد جرم روکنا ہے ،سوال یہ ہے کہ کرپٹ پریکٹس روکنے کیلئے کس ٹھوس شہادت پر انحصار کیا جائے ۔ اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ دو طریقے ہیں،پہلا طریقہ پیسوں کے لین دین کے استعمال کے الزام کو جانچنا ہے ،دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیلٹ دیکھا جائے ،سب سے اہم شہادت بیلٹ ہے ،چوکیدار کو چوری سے بچنے کیلئے رکھا جاتا ہے ،سیاسی جماعتوں کا کردار دنیا بھر میں بہت اہم ہے ،ڈسپلن نہیں رکھنا تو سیاسی جماعتیں بنانے کا کیا فائدہ ہے ،الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے اور جاگنے کو تیار نہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک موقع پر سوال اٹھایا کہ کیا ریفرنس پرسپریم کورٹ کی رائے حتمی ہوگی،عدالتی رائے پر نظر ثانی درخواست آسکتی ہے ،کیا ایسا فیصلہ درست ہوگا جس کے اثرات سیاسی ہوں اور نظر ثانی بھی نہ ہو سکے ۔پاکستان بار کونسل کے وکیل عثمان منصور نے دلائل دئیے کہ ہر ووٹ کا خفیہ ہونا لازم ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل خرم چغتائی نے دلائل دئیے کہ وفاقی حکومت کو عدالت سے رائے مانگنے کا اختیار نہیں۔وکیل قمر افضل نے دلائل دئیے ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے کے حوالے سے اٹارنی جنرل کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں،ووٹ کو ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رکھا جاسکتا۔عدالت عظمیٰ نے اپنی رائے محفوظ کر لی ۔ جسے عدالت اب اپنی سہولت کے مطابق پبلک کرے گی۔