اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے امریکی شہری اور وال سٹریٹ جنرل کے رپورٹر ڈینیئل پرل کے قتل کے ملزمان کی بریت کے خلاف اپیلیں باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ملزمان کو آئندہ ہفتے تک رہا نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حکومت سندھ کی اور دیگر کی اپیلوں کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کرکے مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے ۔دوران سماعت جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے صرف اغواء کے جرم میں ہائی کورٹ نے سزا دیکر اتمام حجت کیا۔فاضل جج کا کہنا تھا کہ ڈینیل پرل کے اہلخانہ کیساتھ ہمدردی ہے لیکن فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا۔جسٹس قاضی محمد امین احمد نے سوال اٹھا یا کہ مقدمے میں حکومت کا دارو مدار ٹیکسی ڈرائیور کے بیان پر ہے لیکن ڈینیل پرل کی تو لاش بھی نہیں ملی پھر ٹیکسی ڈرائیور نے اسے کیسے پہچانا کہ یہی ڈینیئل پرل ہے ؟۔فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ مرکزی ملزم عمر شیخ کو کس نے دیکھا اور پہچانا؟، مفروضوں پر بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں د ینگے ۔وکیل استغاثہ کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس قاضی امین نے کہا کہ استغاثہ نے پورے کیس کی کڑیاں جوڑنی ہیں، ایک کڑی بھی ٹوٹ گئی تو کیس ختم ہوجائے گا، سازش، تاوان اور دیگر تمام الزامات میں ملزمان بری ہوئے ، اعتراف جرم ریکارڈ سے ثابت کرنا ہوگا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا اس بارے بھی ثبوت فراہم کرنے ہوں گے کہ قتل کی سازش کہاں ہوئی۔سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ شناخت پریڈ میں ٹیکسی ڈرائیور نے عمر شیخ کو پہچانا، ٹیکسی ڈرائیور نے تصاویر دیکھ کر ڈینیل پرل کو پہچانا، عمر شیخ نے عدالت میں اعتراف جرم کیا۔ فاروق نائیک نے خود کلامی کے حوالے سے رومیو جیو لیٹ افسانے کا حوالہ بھی دیا جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کسی رومانوی افسانے کی بنیاد پر قتل کیسز کے فیصلے نہیں ہوتے ۔ عدالت کے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ مقدمے میں کل 23 گواہ ہیں۔ ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے اس موقع پر دلائل دیئے عدالت کا سازش کے عنصر سے متعلق استفسار درست ہے ۔انھوں نے کہا کیس کے 2 ملزمان کے اقبالی بیانات میں سازش ثابت ہوتی ہے ۔عدالت کا وقت ختم ہونے پر سماعت ملتوی کردی گئی ۔