جناب وزیر اعظم کو بولنے سے فرصت ملے تو وہ سوچنے پر توجہ دیں۔ عمران خان گزشتہ بائیس برس سے مسلسل بولتے چلے جا رہے ہیں۔ غالباً یہ عربی محاورہ ان کی نظر سے نہیں گزرا۔’’السکوت افصح من الکلام‘‘ کہ بسا اوقات خاموشی میں گفتگو سے کہیں بڑھ کر ابلاغ ہوتا ہے۔ جناب عمران خان ملک سے باہر جانے لگتے ہیں تو دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔ خارجہ امور کی نزاکتوں اور باریکیوں کا احساس کئے بغیر وہ کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس کے بارے میں کبھی دوسرے ممالک جوابدہی کرتے ہیں اور کبھی پاکستان میں خان صاحب کی باز پرس شروع ہو جاتی ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ چین کی نوعیت کچھ الگ ہے جس میں زیادہ تر کانفرنسیں‘ سیمینار اور عصرانے و عشائیے ہی ہیں تاہم ان کی چینی صدر زی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کی کوئینگ سے ملاقاتیں ہوں گی جن میں سی پیک اور کئی نئے تجارتی و تعلیمی معاہدے بھی متوقع ہیں گزشتہ ایک برس کے دوران پی ٹی آئی کے وزیروں مشیروں نے سی پیک کے بارے میں بڑے غیر محتاط بیانات دیئے اور عملاً یہ گیم چینجز منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔ تاہم جناب وزیر اعظم کا کہنا یہ ہے کہ سی پیک ہماری پہلی ترجیح ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور ایسا صرف زبانی نہیں عملی طور پر بھی ہو۔ جناب وزیر اعظم بیرونی دوروں پر جاتے ہیں تو حکومت کے وزیر مشیر پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں کہ جناب وزیر اعظم بہت بڑی سرمایہ کاری لائیں گے۔ وزیر اعظم قرضوں اور مالی مراعات کی مد میں بہت کچھ لائے ہوں گے مگر سٹیٹ بنک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ میں بھی زرمبادلہ کے بارے میں صورت حال کو تشویشناک قرار دیا گیا ہے۔ جناب عمران خان کی دل خوش کن باتوں کا اوورسیز پاکستانیوں پر مثبت اثر ہوا اور انہوں نے وطن واپس آنے کی ٹھان لی۔ یہاں وطن واپس آ کر ان کے ساتھ کیا ہوا جس کے نتیجے میں اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے ان ملکوں کی طرف مراجعت کا فیصلہ کر لیا جہاں سے وہ آئے تھے۔تین چار اوورسیز پاکستانی خاندانوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جن کے سربراہوں نے خان صاحب کی دل لبھانے والی باتوں سے متاثر ہو کر اپنا کاروبار‘ اپنا سرمایہ‘ اپنے بچے اور اپنا مستقبل سب کچھ پاکستان منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اندیشہ ہائے مورد راز کو جھٹکتے ہوئے انہوں نے اس فیصلے پر عملدرآمد بھی کر ڈالا۔ ڈاکٹر طارق شیخ نے ڈائو میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کیا۔ برطانیہ سے طب میں اختصاص حاصل کیا اور وہاں کی شہریت بھی لے لی۔ کئی برس سعودی عرب میں گزارنے کے بعد وہ پاکستان آئے تو ان کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ان کے سرمائے کا تحفظ کرے گی مگر ہوا اس کے برعکس کیونکہ جناب عمران خان کا ماٹو ہے کہ غم دے کے بھول جائو یہاں ڈاکٹر شیخ نے ایک کنٹریکٹر سے اپنا اور ایک اور اوورسیز پاکستانی دوست کا مکان تعمیر کروانے کا معاہدہ کیا۔ کنٹریکٹر ڈاکٹر طارق شیخ کا مکان ادھورا اور ان کے دوست کے مکان کی بنیادیں کھود کر لاپتہ ہو گیا، شیخ صاحب کے دوست نے جب بیرون ملک محنت و مزدوری سے کمائے ہوئے اثاثے کو یوں ڈوبتے دیکھا تو اس نے ڈاکٹر صاحب سے مطالبہ کیا کہ وہ ساری رقم انہیں خود واپس کریں کیونکہ کنٹریکٹر بنیادی طور پر ان کا جاننے والا تھا۔ شیخ صاحب نے اپنا ایک اور پلاٹ اونے پونے بیچ کر دوست کو ادائیگی کی، کنٹریکٹر کو بعداز خرابی بسیار تلاش کیا گیا تو اس نے رقم کی واپسی کا معاہدہ کیا مگر کسی وکیل سے مل کر الٹا ڈاکٹر صاحب کی بیگم کے خلاف ایک عدالت میں جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا۔ گزشتہ ہفتے بھابھی فوزیہ نے ایک شام مجھے راولپنڈی سے فون کیا کہ کیا آپ نے ہمیں برطانیہ اور سعودی عرب سے اس لئے واپس بلایا تھا کہ آپ ہمارا سرمایہ لوٹ لیں اور ہمیں جھوٹے مقدمات میں عدالتوں میں گھسیٹیں‘ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ میرے پاس شرمندگی کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا۔ پانچ چھ برس پہلے زیادہ پاکستانی ڈاکٹر سعید اختر کو نہیں جانتے تھے آج تو پاکستان کا بچہ بچہ انہیں جانتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب امریکہ میں انتہائی کامیاب بلکہ سپر سٹار یورالوجسٹ تھے۔ لاکھوں ڈالر ماہانہ کماتے۔ جہاز اڑاتے‘ ایکڑوں میں پھیلے ہوئے فارم ہائوس میں رہائش پذیر تھے۔ عمران خان امریکہ جاتے تو ڈاکٹر صاحب شوکت خانم ہسپتال کے لئے حسب توفیق فنڈ دیتے اور خان صاحب کی باتوں پر سر دھنتے۔ ڈاکٹر سعید اختر پاکستانی امریکن ہیں۔ عمران خان کی پرکشش باتیںاور غریب پاکستانی مریضوں کی حالت زار انہیں پاکستان کھینچ کر لے آئی۔ وہ سرمایہ بھی لائے‘ وہ اپنی سرجری کی مہارت بھی لائے اور عالمی سطح کے ایک لیور اینڈ کڈنی انسٹی ٹیوٹ کا وژن بھی ساتھ لائے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے سامنے جب ڈاکٹر سعید اختر نے اپنا وژن وضاحت کے ساتھ رکھا تو شہباز شریف کے دل کے تار بج اٹھے اور یوں صرف ڈیڑھ دو برس کے عرصے میں عالمی معیار کا یہ انسٹی ٹیوٹ تکمیل کے آخری مراحل میں پہنچ گیا۔ پھر سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے عالمی شہرت یافتہ اور فرشتہ صفت ڈاکٹر کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اسے ساری دنیا نے دل گرفتگی سے دیکھا۔ جناب عمران خان ڈاکٹر سعید اختر کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ اقتدار سے پہلے ان کے ساتھ ان کی امریکہ اور اسلام آباد میں ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں اور وہ ان کے عالمی انسٹی ٹیوٹ کے بڑے مداح تھے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے ایک اور بنچ نے جسٹس ثاقب نثار کے جانے کے بعد ان کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے جو نیا حکم جاری کیا۔ اس میں ڈاکٹر سعید اختر کی خدمات کو سراہا گیا اور انہیں ہر الزام سے باعزت طور پر بری کیا گیا مگر گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران انہیں جس ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اذیت ہمارے عدالتی نظام کے بارے میں بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ طب کی دنیا کے ایک سے ایک گوہر آبدار کو ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک سے اکٹھا کیا اور انہیں پاکستان آنے پر آمادہ کیا مگر اس اذیت ناک صورت حال کے بعد وہ ڈاکٹر صاحبان بھی واپس جا رہے ہیں۔ برا ہو سیاست کا کہ سب کچھ جاننے اور اتنے اہم منصوبے کی اہمیت کا ادراک رکھنے کے باوجود جناب عمران خان کی پنجاب حکومت نے لیور اینڈ کڈنی انسٹی ٹیوٹ کے بارے میں پنجاب اسمبلی میں نئی قانون سازی کر کے اسے ایک عام سرکاری ہسپتال بنا دیا ہے۔ یوں ایک بین الاقوامی معیار کا طبی منصوبہ ہماری سیاست اور شخصی پسند و ناپسند کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ایک بڑی عمر کی پاکستانی امریکن خاتون نے لاہور میں پلاٹ خریدا۔ اس پر قبضہ گروپ نے قبضہ کر لیا۔ اب وہ خاتون تھانوں‘ عدالتوں اور دفتروں میں دھکے کھا رہی ہیں اور پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کی قیمت چکا رہی ہیں۔ ایک انجینئر دوست نے سعودی عرب میں تیس برس مزدوروں کی طرح کام کیا وہاں ایک کاروبار بھی کیا اب وہ پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ تو ایف بی آر اور نیب ان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔80لاکھ پاکستانی بیرون ملک محنت مزدور کر کے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں۔ جس سے ہماری لڑکھڑاتی ہوئی معیشت چلتی ہے۔ عمران خان نے دلفریب باتیں تو بہت کیں۔ مگر انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کے لئے کوئی منصوبہ پیش کیا اور نہ ان کے سرمائے کا تحفظ کیا۔ اب اگر تلخ تجربات کے ساتھ ہزاروں اوورسیز پاکستانی اپنا سرمایہ اور اثاثہ لے کر واپس چلے جاتے ہیں تو نئے پاکستان کا کیا تاثر ہو گا۔ جناب عمران خان پاکستان سرمایہ لانے سے زیادہ اس سرمائے کی فکر کریں جو پاکستان آ کر واپس جا رہا ہے۔