عمران خان نے بھری بزم میں راز کی بات اپنے روایتی دبنگ انداز میں کہی تو اقوام عالم کی باگ ڈور تھامنے اور اسے اپنے قطب نما کی سوئی کی سمت ہانکنے والوں کے ماتھے پہ بل پڑنے لازمی تھے۔ ان کا کہنا بجا بھی تھا کہ جس منی لانڈرنگ کی تلوار مغربی ممالک نے پاکستان کے سر پہ لٹکا رکھی ہے، وہ جاتی کہاں ہے۔ اسے تحفظ کون دیتا ہے۔اس تک رسائی کس کے قوانین ناممکن بناتے ہیں اور غریب ممالک کو غریب تر کرنے میں ہمارے کرپٹ حکمرانوں کا ہاتھ کون بٹاتاہے؟یہ دولت کہاں استعمال ہوتی ہے کون جانتا ہے تو کیا منی لانڈرنگ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے لوٹی دولت سے بنی آف شور اور شیل کمپنیاں کن کارروائیوں میں مصروف ہیں اور دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کررہی ہیں۔جس وقت انہوں نے یہ بات کی مجھے دی گارڈین کی تقریبا پانچ سال پرانی رپورٹ یاد آگئی۔ رپورٹ کے مطابق غریب ممالک سے ملین نہیں بلین ڈالرز کی دولت امیر ملکوں کے ٹیکس ہیون میں منتقل ہوجاتی ہیں اور یہ ممالک انہیں روکنا چاہتے ہیں نہ روکتے ہی ہیں۔امریکی این جی او گلوبل فنانس انٹیگریٹی نے اس پہ تفصیلی ریسرچ شائع کی تھی جس کے مطابق نئے ہزاریے کے پہلے عشرے میں تقریبا چھ ٹریلین ڈالر غریب ممالک سے ان ٹیکس ہیون میں جو امیر ممالک کی ملکیت ہیں، منتقل ہوئے۔حالانکہ کہ جی ایٹ رکنیت والے ممالک اس معاملے میں نہایت سخت موقف اپناتے رہے ہیں لیکن عالمی ادارہ برائے معاشی تعاون اور ترقی(OECD) جو 34 ممالک پہ مشتمل ہے ، غریب ممالک سے ان ہی طاقتور ترین ملکوں میں دولت کی ناجائز ترسیل سے متعلق چشم کشا رپورٹ پیش کرتا ہے۔ گلوبل فنانس انٹیگریٹی کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک سے دولت کے ناجائز بہائواور ٹیکس ہیون میں ان کی محفوظ ترسیل میں وہ امداد بھی شامل ہے جو غریب ملکوں کو دی جاتی ہے۔ یوں امداد جہاں سے آتی ہے وہیں پہنچ جاتی ہے اور ٹیکس سے محفوظ بھی رہتی ہے۔یہ دولت منی لانڈرنگ، غیر ملکی کمپنیوں سے رشوت خوری، چوری شدہ اثاثوں اور ٹیکس چوری سے بچائی ہوئی دولت اور انڈر انوائسنگ یا اوور انوائسنگ یعنی ٹرانسفر پرائسنگ یا امپورٹ یا ایکسپورٹ کے وقت اجناس کو ٹیکس بچانے کے لئے اصل قیمت سے کم دکھانا شامل ہے۔ یوں تو ٹیکس خوری کے کئی طریقے ہیں اور ٹیکس کے ماہر وکلا دنیا بھر میں ٹیکس قوانین کو دھوکا دینے اور ان میں خلا ڈھونڈ کر اپنی فیس کھری کرنے میں ماہر ہیں لیکن یہ غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکا دے کر کمیشن کھانے کا کام ہماری حکومتیں بڑی صفائی سے کرتی رہی ہیں۔ظاہر یہ پیسہ ملک میں نہیں رکھا جاتا جہاں کسی بھی وقت حکومت بدل سکتی ہے۔اس کے لئے امیر ملکوں نے فول پروف انتظامات کئے ہوئے ہیں جہاں کوئی باز پر س بھی نہیں ہوتی کہ یہ پیسہ آیا کہاں سے ہے۔اس کے علاوہ جس فیٹف کی تلوار پاکستان کے سر پہ لٹک رہی ہے اس نے اینٹی منی لانڈرنگ اور رد دہشت گردی کی مد میں چالیس سے زائد پروٹوکول بنا رکھے ہیں۔ یہ پروٹوکول کسی بھی کمپنی کی حقیقی یا بینیفیشل ملکیت پہ ہی کام کرتے ہیں اور اس کی منی ٹریل پہ نظر رکھ سکتے ہیں لیکن جب لندن کے فلیٹ ، نیسکول اورنیلسن گرم دودھ کے گلاس کی طرح ایک دوسرے کو پکڑائے جاتے رہیں تو کسی کا والد بزرگوار بھی انہیں نہیں پکڑ سکتا۔ اس کے لئے آپ کو ان ہی ماہرین کی مدد لینی ہوگی جنہوں نے ان ہی لوگوں کو یہ راہ دکھائی ہے۔ ادارہ برائے معاشی تعاون و ترقی کے 36 ارکان ممالک جو دنیا کی معیشت پہ حاوی ہیں، ان پروٹوکولز کو اس لئے بھی نافذ کرنے میں ناکام رہے کہ اس لوٹ مار میں بڑے بڑے سیاسی چہرے ملوث تھے اور ظاہر ہے غیر سیاسی بھی۔مزید یہ کہ کھرا ان کے اپنے گھروں کو جاتا تھا۔اگرچہ بظاہر جی ایٹ ممالک کے سربراہوں نے اس پہ قابو پانے کے لئے اقدامات ضرور کئے کیونکہ ان کی اپنی اکانومی بھی خطرے سے دوچار تھی ، برطانیہ نے ڈیوڈ کیمرون کی سربراہی میں ان وکلا، اکائونٹنٹ اور کاروباری افراد کے خلاف کریک ڈاون بھی کیا جو شیل کمپنیاں بنائے بیٹھے تھے لیکن وہ درحقیقت کسی اور کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائی گئی تھیں۔ ان چھتیس ترقی یافتہ ممالک میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو فیٹف کے پروٹوکول یا تجاویز پہ پورا اترتا ہو لیکن تلوار سب نے بیچارے پاکستان پہ لٹکائی ہوئی ہے۔یہ ممالک خود ہی اپنے لوگوں کی ان اداروں تک رسائی نہیں ہونے دیتے جہاں سے منی لانڈرنگ کے ثبوت حاصل کئے جاسکیں۔ ادارہ برائے معاشی تعاون وترقی کے ستائیس ممالک کو یہی شکایت ہے۔جی ایٹ ممالک یعنی امریکہ، جاپان،برطانیہ، اٹلی، فرانس، کینیڈا،روس اور جرمنی ایسا ہونے ہی نہیں دیتے۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ آپ دس بڑی ٹیکس ہیون کی لسٹ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ یہ آپ کو ان ہی ممالک کے زیر نگین یا زیر اثر نظر آئے گی۔ان میں سر فہرست لکزمبرگ ہے جو بلجیم، فرانس اور جرمنی کی سرحد پہ واقع ہے۔امریکہ کی مشہور زمانہ بڑی کمپنیاں جو فارچون 500 کمپنیاں کہلاتی ہیں، کا تینتیس فیصد سرمایہ یہاں لگا ہوا ہے جو ٹیکس چوری سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔دوسرے نمبر پہ کے مین آئی لینڈز اور آئل آف مین جو برطانیہ کی ملکیت ہیں، اس کار خیر میں شریک ہیں۔ان میںجرسی جو برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ ملکیت ہے ،آئر لینڈ، ماریشس، باہاماز،برمودا، سوئٹزرلینڈاور موناکو شامل ہیں جو زیادہ تر برطانیہ فرانس یا امریکہ کی ملکیت ہیں۔ ساری دنیا میں انداز رشوت خوری سے اکھٹا کیا گیا ایک ٹریلین ڈالر سالانہ ان ٹیکس ہیونز کی نذر ہوتا ہے جبکہ غریب ممالک کے امیر حکمران سالانہ بین بلین ڈالر کی ناجائزترسیل ان جنتوں میں ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔پاکستان جیسے غریب ملک سے دس بلین ڈالر ہمارے بدعنوان حکمران ان ٹیکس فری جنتوں میں منی لانڈرنگ کرکے بھیج چکے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ امیر ممالک میں انڈر انوائسنگ یا ٹیکس چوری کی مد میں جو دولت جمع کرکے باہر بھیج دی جاتی ہے وہ اپنی مضبوط معیشت کے باعث ادائیگی کا توازن بہتر بنا لیتے ہیں اور دیگر ذرائع سے اس مسئلے سے نمٹ لیتے ہیں لیکن جن غریب ممالک میں ٹیکس بیسڈ اکانومی موجود ہے وہ بری طرح متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ادائیگی کے توازن میں برآمدات کا خانہ تقریبا خالی اور درمدآت کا بھرا ہوتا ہے۔خود غرض حکمران خود ان کمپنیوں کے بلواسطہ مالک ہوتے ہیں جو انڈر انوائسنگ کے ذریعے ٹیکس چوری کرتی اور آف شور کمپنیوں میں لگا دیتی ہیں۔ عمران خان نے سرمائے کے مرکز میں بیٹھ کر اسے آئینہ دکھایا ہے۔جرأت اسی شخص کو ہو سکتی تھی جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ حیرت ان دانشوروں پہ ہے جو اس کڑے وقت میں سوشلزم کا راگ الاپتے نہیں تھکتے لیکن سرمائے کی دنیا میں ایک صاف گو شخص کی جرأت مند آواز انہیں سنائی نہیں دیتی۔ شاید اس لئے کہ وہ مدینہ کی ریاست اور خلیفہ وقت کے کُرتے کے حساب کے حوالے دیتا ہے اور ہمارے لبرلوں کو یہ ہضم نہیں ہورہا۔