عالمی منظرنامے پہ نظر دوڑائیے تو ایک انکشاف ہوگا ۔میری کوشش ہوگی کہ بات کو سادہ اور سہل کردوںورنہ اس ایک اجمال کی تفصیل کئی ایک کالموں کی جگہ گھیر لے گی اور یہ میرا آج کا موضوع بھی نہیں ہے۔فی الحال اس پہ اکتفا کیجئے کہ عالمی بساط پہ چھائے شاطروں کی اکثریت سرمایہ دار ہے۔نظریاتی نہیں،کہ نظریاتی سرمایہ داری ایک اور شے ہے، بلکہ حقیقی اور فی نفسہ سرمایہ دار۔ میں اس خیال کی تصدیق کی اس وقت سے منتظر ہوں جب بچے کھچے روس میں صدر پوٹن نے ایک بار پھر زمام کار سنبھالی تھی۔ میرا اندازہ تھا کہ اب امریکہ،بھارت اور اسرائیل میں بھی سرمایہ دار اور بزنس ٹائیکون ہی مسند اقتدار پہ متمکن ہونگے۔جس وقت روس میں صدر پوٹن دوسری بار منتخب ہوئے اور انہوں نے تا دم مرگ صدر بنے رہنے کی صورت نکالنے کا اشارہ دیا، اس خیال کو مزید تقویت ملی۔اتفاق سے اس وقت پاکستان میں بھی یہی صورتحال تھی لیکن ہمارے کاروباری حکمران اپنی ہوشربا کرپشن اور جائزناجائز اثاثوں کی طویل فہرست کے باوجود عالمی سرمایہ داری کی متعلقہ فہرست میں کہیں فٹ نہیں بیٹھتے تھے۔ جب امریکہ کے چوٹی کے سرمایہ دار اور دی ٹرمپ آرگنائزیشن کے سی ای او ر ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوگئے تو امریکی انتخابات میں سرمایہ لگانے والی پی اے سیز، براہ راست اقتدار میں آگئیں۔یہ امر باعث دلچسپی ہوگا کہ دی ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے امریکہ کے روایتی اور تزویراتی حریف روس اور چین میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ ان دونوں ممالک کے ساتھ اس کی تجارتی جنگ اور پابندیوں کے ڈرامے بھی جاری ہیں۔ روس بھارت اور امریکہ میں مذکورہ صورتحال بننے کے بعد مجھے یہ یقین ہوگیا تھا کہ پاکستان میں اس بار ایک ہی شخص ان تینوں کو اپنے ذاتی مفادات سے بلند ہوکر ٹکر کا مقابلہ دے سکتا ہے اور وہ کوئی سرمایہ دار نہیں ہوگا۔پھر آپ نے دیکھا کہ غریب کے حلق کے نوالے سے بھی منافع کشید کرنے والا کوئی سرمایہ دار نہیں،بلکہ صدقہ خیرات اور انفاق سے غریبوں کے لئے مفت کینسر اسپتال بنانے والاعمران خان برسر اقتدار آگیا۔ یہی اس موجودہ منظر نامے میں، عمران خان کی عظمت کا ایک پہلو بھی ہے اور کسی حد تک ان کی کمزوری بھی کہ وہ قطعی بزنس مین نہیں ہیں۔ انہیں سرمائے کی نفسیات بہت اچھی طرح معلوم ہوگی لیکن سرمائے کا توڑ مزید سرمایہ ہے، اس کا وہ کیا کریں گے؟یہی وہ نکتہ ہے جو ایک عام پاکستانی جو اپنی بنیاد میں نظریے سے جڑا ہوا ہے، نظر انداز کررہا ہے اور اسی وجہ سے اسے کل ہیوسٹن ٹیکساس میں مودی اور ٹرمپ کی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے محبت بھری نظروں اور فقروں کے تبادلے کے درمیان کی گئی تقریروں سے بددلی محسوس ہورہی ہے۔بات یہ ہے کہ کشمیر کو چھیڑ کر بھارت نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے وژن کو محدود کرکے رکھ دیا ہے اور اس کاسارا زور مسئلہ کشمیر کو ہر فورم پہ اجاگر کرنے میں صرف ہورہا ہے جو موجودہ صورتحال میں ضروری بھی ہے۔یہ امید افزا بات ہے کہ عمران خان اپنے دورہ امریکہ میں بل گیٹس سمیت کئی بڑے سرمایہ کاروں سے ملاقات بھی کریں گے یعنی یہ بنیادی نکتہ ا ن کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے اور ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ مودی کی ہاوڈی مودی نامی جلسے کے لئے ٹیکساس کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا جبکہ نیویارک ، واشنگٹن اور سان فرانسسکو بالترتیب سیاسی، معاشی اور تیکنیکی اعتبار بہتر مقامات تھے ۔ بات بس اتنی ہے کہ امریکہ کے ٹیکساس کے تیل اور گیس کے ذخائر ، جن کے متعلق گزشتہ کالموں میں لکھا جاتا رہا ہے، اپنے جوبن پہ ہیں اور بھارت اس کی اہم ترین مارکیٹ ہے۔گزشتہ سال ہی دہلی اور واشنگٹن میں توانائی سے متعلق معاہدہ کیا جاچکا تھا۔امریکہ نے بھارت پہ ایرانی تیل کی خرید پہ بھی پابندی لگارکھی ہے۔اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس دوران ایک بار چند ممالک کو ایرانی تیل کی خریداری کی پابندی سے مستثنا قرار دیا گیا تھا، ان میں بھارت بھی شامل تھا۔دراصل ترسیل ابھی راستے میں تھی اور بھارت کوکچھ وقت درکار تھا۔اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔امریکہ یہ ضرورت پوری کرے گا۔دوسری طرف چین نے تجارتی جنگ کے باعث امریکی تیل کی خریداری بند کردی ہے۔ ایسے میں بھارت امریکی تیل کے لئے سب سے بڑی منڈی ثابت ہوگا یعنی اس وقت تک،جب تک آرامکو اور اوپیک کا بھٹہ ہی نہ بیٹھ جائے۔مودی کا حالیہ دورہ امریکہ توانائی کے معاہدوں کو آخری شکل دینے کے لئے سرمایہ کار کمپنیوں سے رابطے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے۔ بھارت کی پیٹرونیٹ اور ٹیکساس کی ٹیلورین کمپنی کے درمیان آٹھ بلین ڈالر کا معاہدہ طے پاچکا ہے جس کے تحت ٹیلورین کی لیوسیانا ایل این جی ٹرمینل سے مارچ 2020 ء تک بھارت اپنے دس ملین صارفین کو ایل این جی فراہم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔یہ مبینہ طور پہ امریکہ کی شیل گیس برآمدات منصوبے میں دنیا کی سب سے بڑی غیر ملکی انویسٹمینٹ قرار دی جارہی ہے۔یہی بھارتی پیٹرونیٹ اسی ٹیلورین کے اٹھائیس بلین ڈالرکے ڈرفٹ ووڈ ٹرمینل میں سے اٹھارہ فیصد کا ایکویٹی اسٹیک بھی ادا کرے گا۔اس اہم ترین مرکزی نکتے کے علاوہ ہیوسٹن کی اٹھائیس کمپنیوں کی ستر کے قریب ذیلی کمپنیاں بھارت میں موجود ہیں۔ہیوسٹن دونوں ملکوں کے درمیان چوتھا بڑا تجارتی گیٹ وے ہے اور بھارت اس کا دسواں بڑا تجارتی شریک بھی ہے۔اس تجارت کا حجم پانچ بلین ڈالر سے زیادہ ہے اور یہ گزشتہ سال سینتیس فیصد بڑھ چکی ہے۔ہیوسٹن میں کوئی ڈیڑھ لاکھ کے قریب بھارتی مقیم ہیں جن میں سے نصف آپ نے کل گلا پھاڑ پھاڑ کر ہاوڈی کے نعرے لگاتے دیکھے ہونگے۔یہ اس پس منظر کی ہلکی سی جھلک ہے جس میں مودی نے ہیوسٹن میں اپنی طاقت اور پذیرائی کا عظیم الشان مظاہرہ کیا۔ اس ادا پہ صدر ٹرمپ کیوں نہ لہلوٹ ہوجاتے جب ان کے نو مولود خزانے ٹھکانے لگ رہے ہوں ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ آرگنائزیشن کے اثاثے بھی بڑھ رہے ہوں۔ ایسے میں وہ مسلم دہشت گردی کے خلاف اکٹھ کی بات کریں یامودی کو ان تہنیتی القابات سے نوازیں جن سے وہ خود بھی واقف نہیں تھے ، چوما چاٹی کے ان مناظر سے زیادہ کچھ نہیں تھے جو اصل کام سے پہلے ضروری ہوتے ہیں۔ عالمی معاشی اشاریے ہی نہیں خود بھارت کے معاشی بزرجمر چیخ چیخ کر زبوں حال معیشت کا حال سنا رہے ہیں لیکن ان کی سن کون رہا ہے۔رہ گیا کشمیر تو اس کی پروا کس کو ہوسکتی ہے؟یہ بھارت یا امریکہ کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔عالمی ضمیر اگر کسی چڑیا کا نام تھی تو وہ کب کی سرمائے کی تپش سے گھبرا کر اڑ چکی۔ کم سے کم سوویت یونین کے ضد سرمایہ نظریات کے حامل دانشوروں کو پاکستان سے اتنی ہمدردی تو ہونی ہی چاہئے جتنی ویت نام یا کیوباسے تھی ۔وہ پاکستان جس کا سربراہ کوئی سرمایہ دار نہیں اور جو سرمائے کے ڈھیر تلے دبے عالمی ضمیر کے سینے پہ انصاف،انسانی حقوق اور اصول کا علم بلند کئے تنہا کھڑا ہے۔