آپ ﷺ ہی وہ عظیم ہستی ہیں جنہیں وجہِ تخلیق ِ کائنات قرار دیا گیا ہے۔مومنین، صوفیا ئﷺ اور من جملہ مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ سرورِ کونین ﷺنے ہی ربِ کائنات کی عزت و عظمت کا شعور عطاء کیا۔آ پ ﷺ اس لامحدود اور ہمیشہ بڑھنے والی کائنات کی واحد ذات اقد س ہیں جن سے محبت ہر مسلمان پر اپنے سگے والدین کی محبت سے زیادہ فرض ہے۔ہم سبھی مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ ہمیں اپنے والدین، اپنے بچوں اور اپنی ذات سے زیادہ عزیز ہیں۔ ہم مسلمان ایمان رکھتے ہیں اور ہمیشہ ربِ کائنات کے حضور دعا گو رہتے ہیں کہ روز ِ محشر اپنے سیاہ اعمال کی بدولت جہاں ہم منہ چھپاتے پھررہے ہونگے۔ہر طرف نفسانفسی اور افراتفری کا عالم ہوگا۔ وہیں آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہمارے لئے ذریعہ نجات ہوگی۔روزِ محشر ہمارے کان بس اسی ایک آواز سننے کوترس رہے ہونگے کہ ’’وہ دیکھو آرہے ہیں محمد ﷺ، جن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی‘۔ دنیا جانتی ہے کہ مسلمان کے دل میں نبی ﷺ بستا ہے۔ یہ ایسی محبت ہے جسے دنیا جہان کے خزانوں سے نہیں خریدا جاسکتا۔عشق ِ محمدی ﷺ تو ہمیں جنت الفردوس کی نعمتوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔یہ وجہ ہے کہ ہم تمام مسلمان نبی ﷺ کی حرمت پہ جان نچھاور کرتے ہیں۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کو اپنی جان کی فکر لاحق رہتی ہے، ہر انسان ہر حال میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺکی صورت میں ایک ایسی ہستی تخلیق کی ہے جو ہمیں ہماری جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب فرمایا کہ ’بعد از خدا بزرگ و توئی قصہ مختصر‘۔ ایسی عظیم ہستی کی شان میں مسلمان گستاخی کرنا تو درکنار سوچنا بھی گناہ تصورکرتا ہے مگر بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ فرانس، پولینڈ، ہالینڈ اور اب بھارت میں ایسے واقعات رونماہونا شروع ہوگئے ہیں کہ اس عظیم ہستی کی شان ِ اقدس میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت گستاخی کا عمل دہرایا جارہا ہے۔ حالانکہ گستاخ عناصر خود بھی جانتے ہیں کہ آپﷺ کی شان میں گستاخی مسلمانوں کوکسی بھی صورت میں قابل ِ قبول نہیں ہے۔ سوال اْٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو ایسے عناصر باربار سرکشی کرکے کونسے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ بار بار اس قبیح عمل کو کیوں دہرایا جارہا ہے؟ دراصل نبی پاک ﷺ ہی وہ ذات ہیں جنہوں نے ہم مسلمانوں کو ایک خدا کا راستہ دکھایا جسے عرفِ عام میں توحید کہا جاتاہے۔دوسرا عنصرر سالت کا ہے۔ اس مسئلے کو کئی حوالوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر مغربی عناصر کو توحید اور رسالت سے کیا مسئلہ ہے؟ یہ بہت ہی زبردست مسئلہ ہے۔ مغربی تہذیب کو یہ مسئلہ سمجھ آچکا ہے۔ مغربی تہذیب دراصل مسلم تہذیب کے اس پہلے تصور سے بہت زیادہ خائف ہے۔ مغربی تہذیب آج تک کوئی بھی ایسا تصور پیش نہیں کرسکی جسے دنیا بھر کے مختلف خطوں، مختلف رنگوں، مختلف نسلوں اور مختلف ثقافتوں سے وابستہ افراد مان لیں اور یگانگت کے رنگ میں رنگ جائیں۔ دوسری جانب توحید اسلام کا ایسا خوبصورت تصور ہے جسے اپنانے کے بعد کالے کو گورے پر، عربی کو عجمی پرکوئی فوقیت حاصل نہیں رہتی ماسوائے تقویٰ کے۔ تین سو سال کی ترقی یافتہ قوم ہونے کے باوجود آج تک امریکہ میں نسل پرستی کا عنصر کم نہیں ہوسکا بلکہ آج بھی گورے خود کو کالوں پر برتر سمجھتے ہیں۔ دنیا کی طاقتور ترین قوم ہونے کے باوجود امریکی قوم آج تک عصبیت کی بنا پر خاتون کو صدر نہیں بناسکی۔ مغربی تہذیب اندر سے کھوکھلی اور کئی طرح کے نسلی، ثقافتی، معاشرتی، لسانی، مذہبی تفرقات اور ثقافتی خرافات میں تقسیم ہے۔ مغربی تہذیب میں ایک بھی ایسا جامع تصورموجود نہیں جسے اپنا کر مغربی تہذیب خود کو عالمگیر تہذیب قرار دے سکے۔ جبکہ مسلم تہذیب کا ظہور ہی ایسے تصوریعنی توحید پر ہوا جس کا نقطہ ِ آغاز ہی پوری اْمت کو ایک لڑی میں پرودینا ہے۔ اسلام کے دیگرعقائد بھی ایسے ہیں جنہیں اپنا کر دنیا بھر میں امن و سکون قائم کیا جاسکتا ہے۔ دنیا امن کا گہوارا بن سکتی ہے۔ مسلم تہذیب اپنے اندر عالمگیرت کا وہ تصور سمیٹے ہوئے ہے جسے اپنا کر اْمت ِ مسلمہ دنیا بھر میں عروج حاصل کرسکتی ہے جس کی زندہ جاوید مثالیں ہمیں عہدِ رسالت، خلافت بنو عباس اور خلافت ِ عثمانیہ سے ملتی ہیں۔توحید اپنانے کے بعد ہر مسلمان خود کو ایک عالمگیر مسلم معاشرے کا فرد محسوس کرتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، آپ کوئی زبان بولتے ہوں، کوئی رنگ رکھتے ہوں،کسی قوم سے وابستہ ہوں، اگر آپ کلمہ ِ حق پہ یقین رکھتے ہیں تو محض آپ کو یہی تعارف کرانا ہوتا ہے اور آپ کے ساتھ والا کلمہ گو آپ کا ساتھی ہوگا۔ مسلم تہذیب میں تفریق و تقسیم کی بجائے وحدت کا عنصر غالب ہے۔ اس توحید کے عنصر کو متعارف کرانے والی ذاتِ گرامی آپﷺ ہیں۔ اوپر سے اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر فرض قرار دے دیا ہے کہ جو اللہ کی پیروی کرتا ہے اْس پر فرض ہے کہ وہ آپ ﷺ کی پیروی کرے۔ جو اللہ سے محبت کا خواہاں ہے اْس پر فرض ہے کہ وہ آپ ﷺسے محبت کا دم بھرے۔ دوسری تکلیف مغرب کو اس ذاتِ گرامی ﷺ سے ہوئی ہے کیونکہ عقیدہِ توحید کا پرْچار کرنے والی ذات ِاقدس مسلمانوں کے نزدیک اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب کے مبلغین کا اصل ہدف آپ ﷺکی ذات ِاقدس ہے۔ مغربی تہذیب کے ماننے والوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ حیلے بہانوں سے مسلمانوں کے دِلوں میں آپ ﷺ کی محبت کو ختم کرکے دم لیں گے۔ اس مذموم مقصد کی کامیابی کے لئے اہل ِ مغرب نے ہزاروں طریقے اپنائے ہیں مگر ابھی تک اْنہیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ترکیہ (پرانا نام ترکی) کونیٹو تنظیم کا سرگرم رْکن ہونے کے باوجود تاحال یورپی ممالک کی رکنیت اسی وجہ سے نہیں دی جارہی کیونکہ ترکیہ عوام کے سینوں میں محبت ِ محمدی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اب یہ مسلم تہذیب کے ماننے والوں، پرْچاروں اور مبلغین پر فرض ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے پراپیگنڈے کا موثر جواب دیں وگرنہ مغربی تہذیب جس انداز میں اپنی جڑیں مسلم ممالک میں پھیلارہی ہے ایک دن وہ ہم سے ہماری پہچان چھین لے گی۔