ربیع الاوّل حضور سرور کائناتؐ کی آمد کا مہینہ ہے، ہر طرف سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں سرکار کی آمد مرحبا، دلدار کی آمد مرحبا، منٹھار کی آمد مرحبا، جونہی ربیع الاول شریف کا ماہ مقدس شروع ہوا ہے ہر جگہ جشن عید میلاد النبیؐ منایا جا رہا ہے، میلاد کی محفلیں منعقد ہو رہی ہیں اور آئمہ کرام وجہ تخلیقات کی سیرت پر روشنی ڈال رہے ہیں، شعراء کرام اور نعت خوان سرکار کی ثناء خوانی کر رہے ہیں، ایسا کیوں نہ ہو کہ خود خالق کائنات اپنے فرشتوں کے ساتھ مل کر اپنے محبوبؐ اور اس کی آل پر درود بھیجتا ہے اور درود کی فضیلت یہ ہے کہ مسلمانوں کی نماز درود کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ سرکار کی مدحت سرائی دنیا کی ہر زبان میں ہو رہی ہے، سرائیکی کی خاصیت یہ ہے کہ نعت کو مولود شریف کا نام دیا جاتا ہے، مولود کا مطلب ’’سرکارؐ کا ولادت نامہ‘‘ ہے۔ سرائیکی شاعری کی ہر کتاب حمد و نعت سے شروع ہوتی ہے۔ سرائیکی کے عظیم شاعر شاکر شجاع آبادی کا شعر دیکھئے ذکر تیڈے یار دا مولا کریندا رہ ونجاں توں وی راضی میں راضی اپنا ہاں ٹھریندا رہ ونجاں گزشتہ روز 9 نومبر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش تھا، ملک بھر میں تقریبات ہوئیں۔ روزنامہ 92 نیوز میں میرا کالم بعنوان ’’علامہ اقبال اور نواب آف بہاولپور‘‘ شائع ہوا۔ کالم کی بہت پذیرائی ہوئی، ڈی جی خان سے سرائیکی شاعر عاشق صدقانی اور الطاف جابر نے کہا کہ آپ نے جس طرح بہاولپور کا حوالہ دیا، اسی طرح وسیب کے دوسرے علاقوں کا بھی تذکرہ آنا چاہئے، اسی طرح ملتان سے عارف گلشن نے کہا جیسا کہ آپ نے تفصیل سے لکھاکہ علامہ اقبال کا بہاولپور سے کتنا تعلق تھا، اسی طرح ملتان کے حوالے سے لکھی گئی باتیں پڑھ کر ہمیں بہت معلومات حاصل ہوئیں۔ اپنے دوستوں کے احترام میں شاعر مشرق کے بارے چند باتوں کا تذکرہ کرتا ہوں اور آگے ڈی آئی خان سے ملک وسیم کھوکھر کے اس شکوے کو بھی بجا سمجھتا ہوں کہ مصروفیت کے باعث ’’9 نومبر سقوط ڈی آئی خان‘‘ کے حوالے سے نہ لکھ سکا۔ واقعہ یہ ہے کہ 9 نومبر 1901 کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے عوام کے سخت احتجاج کے باوجود ڈی آئی خان ٹانک بنوں کو صوبہ سرحد میں شامل کیا، ڈی آئی خان ٹانک کے لوگ ہر سال 9 نومبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں، احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں اور لارڈ کرزن کا پتلا نذر آتش کیا جاتا ہے۔ اب میں کروں گا علامہ اقبال اور سرائیکی وسیب ہے۔ وسیب کے حوالے سے علامہ اقبال کا وسیب سے گہرا تعلق تھا۔ بہاول پور کے علاوہ سرائیکی وسیب کے دوسرے علاقوں سے بھی علامہ اقبالؒ کا تعلق رہا۔ ملتان سے تعلق کی کیفیت یہ ہے کہ ملتان سے آنے والے ہر شخص سے ملتان کے بارے محبت کا اظہار کرتے ‘ ملتان کے آم انہیں بہت پسند تھے ۔ علامہ اقبالؒ نے 1935ء میں اپنا رسالہ اقبال جاری کیا تو ملتان کے لالہ بالکش بترا کو اس کا ایڈیٹر بنایا ۔ مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے درمیان فکری اختلاف جھگڑے کی شکل احتیار کر گیا تو یہ جھگڑا بھی ملتان کے علامہ نسیم طالوت نے دونوں اکابرین سے ملکر ختم کرایا ۔ خاص بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کے استاد مرزاارشد گورگانی ملتان کے تھے اور 1906ء میں ان کا انتقال ہوا اوروہ ملتان ہی میں دفن ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں ’’اقبالیات‘’ پر جس شخص نے سب سے زیادہ کام کیا وہ جگن ناتھ آزاد تھے اور ان کا تعلق سرائیکی وسیب کی مردم خیز دھرتی عیسیٰ خیل سے تھا اور وہ سرائیکی کے بھی شاعر تھے اور تقسیم کے وقت ہندوستان چلے گئے تھے۔ملتان کے سید عطاء اللہ شاہ بخاری 1941)ئ۔1819ئ) اور علامہ عنایت اللہ مشرقی (1963ئ۔1888ئ) جن کی عظمت و شہرت محتاج بیان نہیں کے بھی علامہ اقبال سے گہرے مراسم تھے۔ سرائیکی وسیب کے علاقہ ڈیرہ عازی خان سے بھی علامہ اقبال کا گہرا تعلق تھا ‘ ڈیرہ غازی خان کے بہت سے لوگوں سے ان کی براہ راست دوستی اور خط و کتابت تھی ۔ تونسہ کے مولوی صالح محمد کو ایک خط میں علامہ اقبالؒ نے لکھا ’’جس قوم میں سلیمان تونسوی ‘ شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی اور خواجہ غلام فرید چاچڑاں والے پیدا ہو تے تو سمجھ لیجئے کہ یہ علاقہ روحانیت سے خالی نہیں ہے ۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ خواجہ فریدؒ کا عارفانہ کلام عالمگیر ہے مگر اسے خاص علاقے تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ علامہ اقبال کے بیٹے ڈاکٹر جسٹس جاویداقبال صاحب کچھ سال پہلے دربار فرید کوٹ مٹھن تشریف لے گئے اس موقع پر انہوں نے کہا میرے والد خواجہ فریدؒ کی شاعری کے مداح تھے آخر عمر میں دیوان فرید ان کے بستر پر رہتا ‘ آپ کافیاں پڑھتے تھے اور روتے بھی تھے۔ڈیرہ غازی خان کے علاقہ لیہ کا ایک خوبصورت نوجوان کے ایل گابا دیال سنگھ کالج لاہور میں پڑھتا تھا وہ علامہ اقبال کے حلقہ عقیدت میں شامل تھا اور کالج ٹائم کے بعد ان کی خدمت میں حاضر رہتا ۔ 1923ء میں لاہور کی ایک خوبصورت نوجوان لڑکی ’’حسن آرائ‘‘کے ایل گابا پر عاشق ہو گئی اور اس سے شادی کر لی ‘ لاہور میں ہنگامے ہوئے ‘ یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ کے ایل گابا مسلمان ہو یا پھر لڑکی چھوڑ دے ’’چنانچہ علامہ اقبال نے گابا کو مسلمان کیا مگر بعد میں سر ظفر اللہ خان نے اسے مرزائی بنا لیا اس پر زمیندار اخبار نے اداریہ لکھا کہ مرزائی ہونے سے بہتر تھا کہ کے ایل گابا ہندو رہ جاتا ۔ سرائیکی وسیب کے ساتھ علامہ اقبال کے دوسرے سینکڑوں حوالہ جات میں سے ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال ؒ کی پہلی شادی ڈاکٹر شیخ عطاء محمد کی بیٹی کریم بی بی سے 1893ء میں ہوئی ‘ کریم بی بی کے بطن سے آفتاب اقبال ‘ اور ایک بیٹی معراج بی بی پیدا ہوئے ‘ کچھ عرصہ بعد علامہ اقبال کا اپنی بیوی سے اختلاف ہو گیا اور وہ اپنے والد کے پاس آ گئی ‘ ان کے والد ڈاکٹر شیخ عطاء محمد 22جنوری 1881ء سے1907ء تک سرائیکی وسیب کی مختلف ہسپتالوں علی پور ‘ ڈیرہ غازی خان ‘ مظفرگڑھ اور میانوالی میں خدمات سر انجام دیتے رہے‘ اسی دوران علامہ اقبال کی بیوی کریم بی بی ‘ بیٹا آفتاب اقبال اور بیٹی معراج بی بی شیخ عطاء محمد کے ساتھ یہاں مقیم رہے ‘ اسی دوران انہوں نے سرائیکی زبان سیکھ لی اور وہ یہاں کی تہذیب و ثقافت سے بہت زیادہ مانوس ہو گئے۔ ان تمام باتوں پر تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے اور ان تاریخی باتوں کا ریکارڈ میں لانا ضروری ہے ۔افسوس اس بات کا بھی ہے کہ علامہ اقبال پر بہت تحقیق اور ریسرچ ہو رہی ہے ‘ اربوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا ایوان اقبال بھی لاہور میںموجود ہے ‘ علامہ اقبال نصاب میں بھی شامل ہے مگر ان سب میں سرائیکی وسیب کا حوالہ کہیں موجود نہیں ۔