اسلام آباد(اظہر جتوئی)وفاقی حکومت نے ہر سرکاری ادارے کے اخراجات پر 3 فیصد تک کٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے ،جبکہ دوسری طرف ارکان اسمبلی و سینٹ کو خوش کرنے کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اخراجات میں 17 فیصد اضافہ کی ہامی بھر لی ہے ،اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر نئے مالی سال 2020-21 کے بجٹ میں بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کی بنیاد پر ٹارگٹڈ سبسڈیز دینے ،بجلی اور گیس کے بلوں پر سبسڈی مکمل ختم کرنے اور سرکاری اداروں کی ہزاروں خالی آسامیوں کو پر نہ کرنے کی تجاویز پر غور شروع کر دیا ہے ، وفاقی حکومت نے نئے مالی سال 2020-21 کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال ٹارگٹ سبسڈی دی جائے گی،اس سلسلے میں بجلی کے بلوں پر 300 یونٹس تک کے سلیب بھی ختم کرکے بی آئی ایس پی ڈیٹا بیس کی بنیاد پر صرف غریب افراد کو سبسڈی دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق ہر وزارت اور ڈویژن سمیت دیگر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے غیر ضروری اخراجات کم کرکے 400 ارب روپے کی بچت کی جائے گی،اس کے علاوہ سرکاری اداروں کی خالی پوسٹوں کو فل کرنے پر رواں سال مکمل پابندی عائد کر دی جائے گی۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت 70 ہزار پوسٹیں خالی پڑی ہیں،جنہیں فل نہیں کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت ایک طرف تو اخراجات پر کٹ لگا رہی ہے لیکن دوسری طرف سینٹ اور قومی اسمبلی کے اخراجات میں اضافہ کرنے جا رہا ہے ۔ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ کو اس پر عملدرآمد کرنے کیلئے دبائو ڈالا گیا ،جس پر وزارت فنانس نے 17 فیصد اضافہ کی حامی بھر لی۔ذرائع کے مطابق نئے مالی سال کے بجٹ میں چیئرمین سینٹ کے گھر کی تزئین و آرائش کیلئے 360 ملین روپے مختص کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے ۔ذرائع کے مطابق پبلک سیکٹر پروگرام کا مجموعی حجم 630 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جب کہ صحت، تعلیم، صاف ماحول، صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے کے لیے 159 ارب روپ، توانائی کے شعبے کے لیے 70 ارب اور پانی کے لیے 64 ارب روپے ،صحت اور بہبود آبادی کے لیے 18 ارب، تعلیم بشمول ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 34 ارب، فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ کے شعبے کے لیے 19 ارب ،پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے 41 ارب ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے 40 ارب، سابقہ قبائلی علاقوں کے لیے 40 ارب، عام آدمی کے معیار زندگی میں بہتری کے لیے 100 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ذرائع کا بتانا ہے کہ اگلے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، آئندہ مالی سال کے دوران ٹیکس آمدن میں اضافہ مشکل ہے جب کہ اگلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں معمولی اضافہ ممکن ہے ۔