قاتل جانوں کے نہیں ارمانوں کے بھی ہوتے ہیں۔ جان لینے والا تو ایک ہی وار میں کام تمام کرتا ہے اور مقتول تمام دکھوں تکلیفوں سے ہمیشہ کے لئے مکت ہوجاتا ہے ۔ ابوالکلام آزاد نے ’’درس وفا‘‘ میں لکھا’’شیر خونخوار ہے مگر غیروں کے لئے سانپ، زہریلا ہے دوسروں کے لئے، چیتا درندہ ہے مگر اپنے سے کم تر جانوروں کے لئے‘ لیکن انسان دنیا کی اعلیٰ ترین مخلوق خود اپنے ہی ہم جنسوں اور اپنے ہی ابنائے نوع کے لئے درندہ و خونخوار ہے‘‘۔ ستم تو یہ ہوا کہ حضرت انسان نے اپنی خونخواری کو دلفریبی اور خوشنمائی میں چھپانا بھی سیکھ لیا۔ آج انسان خواب بیچتا ہے۔ حسین خواب،ایک پرآسائش پرسکون زندگی کے خواب ،خوابوں کی جنت کے خواب، پھر خریدار کی آنکھوں سے امید کا نور چھین لیتا، اسے مایوسی کے اندھیروں میں سانس سانس مرنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ ویسے تو دنیا خوش کن خواب دکھا کر لوٹنے والوں سے بھری پڑی ہے مگر اس فن میں طاق بلڈر مافیا ہے خوبصورت اینیمشنز ہی نہیں سحر انگیز سائٹ آفس بنائے جاتے ہیں اور غریب کو اپنے گھر اپنی جنت کے خواب دکھا کر لوٹا جاتا ہے۔یہاں ہی بات ختم نہیں ہوتی ایک پلاٹ کودس دس خریداروں کے ہاتھ بیچنا سوسائٹی کے لئے سرکاری اراضی اور گم نام زمیں پر قبضہ کرنا بلڈرز کا معمول ہے۔لاہور میں ہی ایک بشیر نامی شخص 20سال پہلے ہالینڈ گیا برسوں مزدوری کی اور اپنے گائوں میں ہی گھر کے لئے چند کنال زمیں خریدکر رجسٹری کروا لی۔ انتقال ہوا ۔گھر بنانے کے لئے پھر پردیس چلا گیا گھر کے لئے مزدوری شروع کی۔ کئی سال مہینے گزرے جب واپس آیا تو اس کے گائوں کے آس پاس کی زمینوں پر سوسائٹی پیرس کا نمونہ پیش کر رہی تھی اپنے پلاٹ پر پہنچا تو بڑی رئیل سٹیٹ کمپنی نے وہاں کمرشل ایریا بنا کر کروڑوں میں فروخت کر دیا تھا۔ یورپ سے آنے والے نے بھاگ دوڑ شروع کی۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔سول عدالت سے کیس جیتا تو سیشن عدالت میں اپیل ہوئی سیشن عدالت نے فیصلہ اس کے حق میں دیا تو کھرب پتی سوسائٹی کا مالک معاملہ کو ہائی کورٹ لے گیا۔ یہ کسی ایک بلڈر کی کہانی نہیں نیب درجنوں ہائوسنگ سوسائٹیوں کے معاملات کی تفتیش کر چکا ہے۔ کچھ لوگوں کو رقوم کے چیک واپس کر کے تصاویر بھی بنوا لی گئیں مگر کتنے ہیں جن کو یہ ریلیف میسر ہے۔ اس طرح نجی سوسائٹیوں کے متاثرین کی شنوائی کے لئے عدالتیں ہیں نیب ہے ایل ڈی اے بھی نجی سوسائٹیوں کی زمین بطور ضمانت رہن رکھتا ہے۔نجی سوسائٹیوں کے دفاتر سیل اور تعمیرات مسمار کی جاتی ہیں مگر خود ایل ڈی اے کا اپناکوئی پرسان حال نہیں۔ پھر سرکار کے اعلیٰ دماغ کارروائی بھی کچھ اس صفائی سے ڈالتے ہیں کہ نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو! سرکار کی چھتر چھایہ میں ہماری افسر شاہی واردات ہی کچھ اس مہارت سے ڈالتی ہے کہ عدالتوں کی پکڑ میں تو کیا آنا نیب بھی مشوروں سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ایل ڈی اے نے سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کے لئے دور حاضرکے جدید ترین تقاضوں سے ہم آہنگ ایک شہر ایل ڈی اے ایونیو ون کے نام سے بسانے کی داغ بیل 20برس پہلے ڈالی تھی عوام الناس کو پرتعیش زندگی کے خواب بیچے غریبوں سے قسطوں میں رقم بٹوری۔ زمینداروں سے سرکاری ریٹ پر زمین بھی ہتھیا لی پھر اس زمین پر اہلکاروں کی سرپرستی میں قبضے ہونا اور عدالتوں میں دعوے دائر ہونا شروع ہوئے ایل ڈی اے کے اہلکاروں کا روزگار چل نکلا کچھ قبضے کرواتے تو سرکاری وکیل مافیا سے فیس لے کر عدالت میں پیش ہی نہ ہوتے۔ انتظار کی سولی پر لوگوں کو 20برس ہونے کو ہیں مگر اس عرصہ میں درجنوں نجی سوسائٹیاں بنیں، بکیں اور شہر آباد ہو گئے مگر ایل ڈی اے ایونیو ون مکمل نہ ہو سکی۔ دروغ بر گردن راوی نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو کامیاب بنانے کے لئے یہ کھیل کھیلا جاتا رہا جب یہ کالونیاں آباد ہو گئیں اور نجی بلڈرز سے آنے والا رزق بند ہوا توسرکاری خونخواروں نے ایل ڈی اے سٹی کے نام سے نیا شکار تلاش کیا۔ علیٰ دماغ اس منصوبے میں مال بٹورنے میں مصروف ہو گئے ایل ڈی اے ایونیو ون کے ڈھانچے پر آج بھی چیلیں نوحہ خواں ہیں۔ ایل ڈی اے ایونیو ون 3744پلاٹ لیٹیگیشن میں ہیں L بلاک میں تو اندھیر نگری کا سا عالم ہے جہاں صرف 250پلاٹس کا الاٹیوں کو قبضہ مل سکا 1303پلاٹوں کے الاٹی انتظار کی سولی پر لٹک رہے ہیں۔ ایونیو ون کے موجودہ کرتا دھرتائوں کے اختیار کا عالم یہ ہے کہ چند ماہ پہلے ایک 65برس کا بزرگ سٹیٹ آفیسرکے پاس عرضی لے کر آتا ہے۔ سٹیٹ آفیسر نے بزرگ سے کہا محترم آپ استاد ہیں، بزرگ ہیں۔ غلط بیانی نہیں کروں گا، سرکاری کام ہے اور سرکار کا اپنا طریقہ کار ۔خدا گواہ ہے خود میرے والد کا پلاٹ لٹی گیشن میں ہے آپ کا معاملہ تیس سال تک تو حل ہونے کی کوئی امید نہیں۔ لطف الرحمن نے شاید اسی موقع کے لیے کہا کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا ایل ڈی اے کے نئے ڈی جی آئے ہیں انہوں نے 20برس سے نامکمل سکیم کا ہنگامی دورہ کیا پودا لگا دیکھیں کب درخت بنتا ہے متاثرین عدالتوں میں گئے، نیب کو درخواستیں دیں۔ نیب کے ڈی جی لاہور نے نجی سوسائٹیوں کے مقابلے میں ذرا مختلف معاملہ کیا اور ڈی جی ایل ڈی اے کو معاملات جلد حل کرنے کا مشورہ دے کر فرض کفایہ ادا کر دیا۔ ہاشم علی خان دلازک نے کہا ہے۔ اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ کیف بھوپالی نے مگر نصیحت کی ہے سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ مگر کیا کریں زندگی امید کا نام ہے اسی امیدکے ساتھ متاثرین وزیراعظم شکایات سیل بھی گئے سنا ہے نیا پاکستان بننے جا رہا ہے۔مگر وہاں سے پھر افسر شاہی کے پاس واپس آ رہی ہیں ۔ بقول فیض احمد فیض فیض تکمیل غم بھی نہ ہو سکی عشق کو آزما کے دیکھ لیا ایونیو ون کے ایک درد دل رکھنے والے افسر کہتے ہیں کوئی عدالت، کوئی نیب ،کوئی وزیر اعظم، کچھ نہیں کر سکتا صرف ایک ہی حل ہے ڈی جی نیب مسئلہ لے کر بیٹھ جائیں میٹنگ میں اہداف طے کریںروز میٹنگ کریںاسی صورت بیل منڈھے چڑھ سکتی ہے ۔پودے لگانے سے تو ہرگز نہیں ورنہ سفر دائروںمیں جاری رہیگا۔ مگر ایل ڈی اے کے ارباب اختیار کو یہ بات کون سمجھائے کہ قتل جانوں کا ہی نہیں ارمانوں کا بھی ہوتا ہے۔