اجنسی بن کے گزر جاتے تو اچھا تھا ہم محبت سے مکر جاتے تو اچھا تھا ہم کو سب پھول نظر آتے ہیں بے مصرف سے گر تری رہ میں بکھر جاتے تو اچھا تھا کبھی ہم عمران سے شناسائی رکھتے تھے اس لئے کہ اس کو صحت اور تعلیمی معیار سے علاقہ تھا۔ہمیں یقینا اس کے آدرش سے محبت تھی اور تھی بھی والہانہ۔آپ یقین کریں نہ کریں مگر مجھ ایسے استاد بھی کسی بھی مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر لیکچر دیتے ہوئے بھی بچوں کو اس عظیم انقلاب کے لئے تیار کر رہے تھے جو کنٹینر پر ہی رہ گیا۔ خیر اب یہی دو محکمے زیر عتاب ہیں۔ آج مگر صرف تعلیم کی بات ہو گی۔ کالم کے آغاز ہی میں آپ کو دلچسپ واقعہ بتاتا چلوں کہ آج صبح میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے عزیر بن سعد کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا کہ آج سے آٹھویں کلاس شروع ہے۔ کہنے لگا’’ابو! ہماری دعا بھی قبول ہو ہی گئی۔‘‘ میں نے پوچھا کہ وہ کونسی؟‘‘ کہنے لگا کہ یہی کہ ’’کاش ایک دن کلاس ہو اور ایک دن چھٹی‘‘ اس پر میں مسکرانے لگا مگر دل میں کڑھتا رہا کہ حکومت کی دعائیں بھی اسی طرح کی ہیں۔ ایک یوم پہلے ایک اور بات پر بے اختیار ہنسی آئی کہ پتہ چلا کہ پانچ چھ ماہ سکول بند رہے اور بیٹا جی کا قد بڑھ گیا ہے ساری پینٹیں اونچی ہو گئی ہیں اور جوتا بھی تنگ پڑنے لگا ہے۔ گویا ساری خریداری نئی ساتھ ماسک سینیٹائزر اور دوسرے لوازمات۔ میں اپنے زمانے کو یاد کرتا ہوں کہ جب دعائیں مختلف ہوتی تھیں کہ بچوں کا اقبال بلند ہو: لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری میں بات کر رہا تھا عمران خان کی کہ وہ بات بات پر تعلیم کی بات کرتے ہیں کی اور کہتے کہ ترقی کا راز صرف تعلیم ہی ہے اور سڑکوں‘ پلوں اور میٹرو بسوں سے ترقی نہیں ہوتی تو سن کر ہم سرشار ہو جاتے ۔مگر جو چیرا تو ایک قطرہ خون نہ نکلا۔ اب کون خاں صاحب سے پوچھے کہ حضور کہاں ہیں وہ وعدے اور وہ دعوے آپ نے جن حسین خوابوں میں رنگ بھرنا تھا آپ تو انہیں مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ تعلیم نظر انداز ہوئی۔ حکومت نے ویسے تو ہر ادارے کے ساتھ اچھا نہیں کیا مگر تعلیم کے ساتھ بہت برا کیا اسے در خور اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔شفقت محمود کی تو کوشش ہے کہ کسی طرح کورونائی ماحول بنا رہے اور سکول کالج بند رہیں۔ یہ مرحلہ وار اور آلٹر نیٹو ڈیز والی بات خاصی مضحکہ خیز ہے۔ ساری دنیا کے کام ہو رہے ہیں بچوں کو تعلیم سے دور کیا جا رہا ہے۔: ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کیا میرے معزز قارئین:آپ میری بات چھوڑیں کہ کالم نگار زیب داستان کے لئے کچھ لکھ جاتے ہیں۔ آپ آل پنجاب ایمپلائز گرینڈ الائنس کے سرپرست حافظ عبدالناصر کی زبانی سن لی جیئے وہ برادر ڈاکٹر اصغر یزدانی اور خالد پرویز صاحب کے ساتھ گھر پر تشریف لائے اور حکومت کے کارنامے بیان کرتے رہے کہ جس کے ساتھ حکومت کا واسطہ ہے اس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں اور صرف تعلیم سے انہیں اللہ واسطے کا بیر ہے۔ کہنے لگے۔ تیس لاکھ ملازمین مراعات سے محروم ہیں جبکہ بیورو کریسی کو 150فیصد ایف آئی اے 155فیصد پولیس کو 150فیصد سیکرٹریٹ کے ملازمین کو 50فیصد یوٹیلیٹی الائونس مل رہے ہیں۔ پنجاب کے ملازمین سندھ کے ملازمین سے بائیس فیصد تنخواہیں کم لے رہے ہیں۔ کے پی کے اور بلوچستان کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد انشورنس کی رقم قوانین کے تحت ملتی ہے جبکہ پنجاب میں انشورنس کی رقم کے لئے مرنا ضروری ہے۔ ملازمین کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جاتا ہے اور پانچ چھ سال کے بعد پھر آغاز سے ملازمتیں شروع ہوتی ہیں یعنی پہلے سال ضائع۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پنجاب کے ملازمین کے ساتھ سوتیلے بچوں والا سلوک کیا جاتا: گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی موجودہ حکومت نے تو ستیا ناس کا سوا ستیا ناس کر دیا ہے۔ان کے سارے خواب ہی چکنا چور ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک پاکستان کی بات کرتے تھے اب تو کئی پاکستان نظر آنے لگے ہیں یہی اساتذہ جو عمران خاں کے آنے کی دعائیں مانگتے تھے کہ ن لیگ کے شریف سرکاری ملازمین کو ذاتی ملازم سمجھتے تھے۔ اب تو ملازمین کو اپنی ذات کی پڑ گئی ہے کہ پہلے خالی خزانہ کا بہانہ کر کے پہلی مرتبہ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں سے محروم رکھا گیا اور اب آئی ایم ایف کے کہنے پر انکریمنٹ کو اصلی تنخواہ کا حصہ نہ بنانے کا ظالمانہ فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔ میرے مہمان بہت کچھ بتا رہے تھے کہ ان کا لکھنا بھی دشوار ہے۔ گو یہ سونامی کا سیلاب سب سے پہلے اساتذہ پر ہی چڑھ دوڑا۔خاص طور پر پنجاب کے اساتذہ اور دوسرا عملہ اس سے متاثر ہوا۔ غالب یاد آیا: میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ پہلے ہی بچوں کی پڑھائی کا نقصان ہو چکا ہے اور اب اساتذہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے تحریک کی تیاری کر رہے ہیں تو بنے گا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ 14ستمبر 2020ء کو لاہور میں آل پاکستان گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب سے مطالبہ کیا گیا کہ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو 30ستمبر تک تسلیم کر لیا جائے وگرنہ ملازمین اپنا جمہوری اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے 7اکتوبر کوپنجاب بھر کے ملازمین گورنر ہائوس کے سامنے دھرنا دیں گے۔ یہ دھرنا تاریخی نوعیت کا ہو گا۔ حیرت ہے کہ حکومت کے خلاف سیاسی سطح پر بھی اپوزیشن گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بنا چکی ہے۔ حالات سچ مچ بگڑتے نظر آ رہے ہیں۔ سیاست میں تو چلو اقتدار کا مسئلہ ہے مگر سرکاری ملازمین کا مطالبہ تو بہت درست ہے کہ کیا سوفیصد مہنگائی میں اضافہ ان پر اثرانداز نہیں ہوا۔ منگائی کا سارا عذاب پڑا ہی سرکاری ملازمین پر۔ تاجر اور مزدور تو اپنے پیسے بڑھا دیتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 24ستمبر کو لاہور میں ڈویژنل کنونشن اور احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ بلکہ دوسرے اضلاع میں بھی سرکاری ملازمین ریلیاں نکالیں گے۔ اس گرینڈ الائنس کے چیئرمین خالد جاوید سینگڑہ جنرل سیکرٹری پروفیسر طارق کلیم اور سرپرست حافظ عبدالناصر ہیں۔آخر میں سبین یونس کے دو شعر: ایک قیامت دل پر ڈھاتے رہتے ہیں خوف کی اک دیوار بناتے رہتے ہیں دکھ اکیلی جان کا ہو تو کیا غم ہے دائو پر اک نسل لگاتے رہتے ہیں