عدم برداشت اور انتہا پسندی کے پر آشوب دور میں انسان دوستی پر مبنی ثقافتی اقدار کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔دسمبر میں سندھی کلچرل ڈے منایا گیا سندھی کلچرل ڈے کس طرح وجود میں آیا؟ اسے جاننے کی ضرورت ہے ، واقعہ اس طرح ہے کہ سابق صدر آصف زرداری اقوام متحدہ سندھی اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر گئے تو ایک ٹی وی اینکر نے ان کے اس عمل کو غیر مہذب قرار دیا ۔جس پر سندھ میں احتجاج ہوا اور سندھیوں نے سندھی ٹوپی اور سندھی اجرک کا دن منانے کا فیصلہ کیا اور وہی دن ان کا کلچرل ڈے قرار پایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں موجود مندوبین نے آصف زرداری کے لباس کی تعریف کی تھی جبکہ ٹی وی اینکر نے تعصب کی بنیاد پر زرداری کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور حقیقت یہی ہے کہ کلچر بہت بڑی طاقت ہے ، پاکستان مختلف زبانوں اور مختلف ثقافتوں کا ایسا گلدستہ ہے جس کے رنگ و بو سے ہم دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں ۔ ثقافت ، انسان دوستی اور محبت کا دوسرا نام ہے ، ایک ثقافت دوسری ثقافتوں کا احترام کرتی ہے ۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ سرائیکی سندھی ، پنجابی ، پوٹھوہاری ، پشتو ، بلوچی ، براہوی ، کشمیری تمام زبانیں اور تمام ثقافتیں اپنی اپنی جگہ پر قابل احترام ہیں ، ثقافتوں کے فروغ کے لئے صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنے چاہئیں ، پاکستان میں سندھ حکومت سندھی زبان اور سندھی ثقافت کے فروغ کے لئے سرکاری سطح پر اقدامات کرتی ہے ۔ 2 مارچ بلوچی کلچرل ڈے ہے ۔ اس سلسلے میں بلوچستان حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اسی طرح 6 مارچ کو سرائیکی کلچرل ڈے ہے ۔ میں نے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی توجہ خط کے ذریعے مبذول کرائی کہ جس طرح سندھ حکومت سندھی کلچرل ڈے مناتی ہے ، اسی طرح پنجاب حکومت کو بھی سرائیکی کلچرل ڈے منانا چاہئے اور پنجابی و پوٹھوہاری کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ صوبے کے لوگ جو ٹیکس دیتے ہیں تو ان کے احساسات و جذبات کا بھی احترام ہونا چاہئے ۔ مگر افسوس کہ وزیراعلیٰ نے جو کہ صوبے کے وعدے پر منتخب ہوئے ، نے نہ صرف یہ کہ میری درخواست پر ابھی تک توجہ نہیں دی بلکہ سرائیکی کی بجائے الحمراء لاہور ، ڈی جی خان آرٹس کونسل ، ملتان آرٹس کونسل و دیگر ضلعی حکومتوں کو بلوچی کلچرل ڈے منانے کی ہدایت جاری کی ہے ۔ بلوچی کلچرل ڈے سر آنکھوں پر مگر سرکاری طور پر اسے بلوچستان حکومت کو منانا چاہئے ، پنجاب میں سرکاری محاصل محاصل کو پنجابی ، سرائیکی اور پوٹھوہاری ثقافت کے فروغ کے لئے خرچ ہونا چاہئے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ جب اقتدار ملتا ہے تو مشورے دینے والے بہت ہوتے ہیں اور خوشامدی لوگ ایسے مشورے دیتے ہیں جس سے حکمران خوش ہوں۔ مگر ہم اصول کے بر عکس بات نہیں کریں گے اور وہ بات کریں گے جو میرٹ پر ہو ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سردار عثمان خان بزدار کے گھر کی زبان بلوچی ہو گی مگر ان کی سیکنڈ لینگویج سرائیکی ہے اور وہ جس عہدے پر براجمان ہیں یہ عہدہ ان کو وسیب کے ووٹوں سے حاصل ہوا ہے ۔ میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو وسیب کی نمائندگی کا حق ادا کرنا چاہئے ۔ میں صاف بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے اقدامات سے وسیب میں تفریق پیدا ہو رہی ہے ۔ جبکہ وسیب میں رہنے والے تمام بلوچ سرائیکی ہیں اور چار سو سالوں سے سرائیکی زبان و ادب کے لئے ان کی بہت خدمات ہیں ۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے مگر حکمرانوں کے فیصلے اور اقدامات دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں ۔ میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں ، وزیراعلیٰ و دیگر حکمرانوں کیلئے کڑوا ضرور ہوگا مگر اس کی حیثیت تریاق کی ہے ۔ 6 مارچ سرائیکی اجرک ڈے کے حوالے سے بات کروں گا کہ اجرک سرائیکی خطے کی صدیوں پرانی ثقافتی علامت ہے ۔ازرق کا لفظ عربی میں سے آیا ہے ۔اجرک کا لفظ ’’ ازرق ‘‘ سے تبدیل ہو کر اجرک بن گیا ۔ اس کا مطلب ’’ نیلا ‘‘ ہے ۔ تاریخی واقعہ ایسے ہے کہ عرب فوج محمد بن قاسم کی سربراہی میں سلطنت ملتان پر حملہ آور ہوئیں تو بہت سارے لوگوں نے اپنے کندھوں پر ’’ لوکار ‘‘ زیب تن کی ہوئیں تھیں جو ملتانی کاشی کے نیلے رنگ سے رنگی ہوئیں تھیں۔ جب عربوں نے دیکھا تو ان کے منہ سے خوشی اور حیرانی سے لفظ ’’ ازرق ، ازرق ‘‘ یعنی ’’ نیلا نیلا ‘‘ نکلا۔ بعد میں اس چادر کا نام اجرک ہو گیا۔ کیونکہ کچھ مقامی لوگ ’’ ز ‘‘ کو ’’ ج ‘‘ بولتے تھے ۔ان سے بھی پہلے اور اس کے بعد بھی حملہ آوری دی وجہ توں سرائیکی قوم سرائیکی خطے کے ساتھ جو بنی وہ الگ داستان ہے۔ سرائیکی وطن سے بے وطن ہو گئے، سرائیکی میں سے سندھی ، پنجابی ، اردو، پوٹھوہاری ، ہندکو اور دوسری بہت سی زبانیں پیدا ہوئیں مگر سرائیکی کی تہذیب، ثقافتی اور جغرافیائی شناخت مٹا دی گئی ۔ ملتانی کاشی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ آپ سندھ جائیں یا بلوچستان ۔ تاریخی عمارتوں پر آپ کو ملتانی کاشی کے نقش نظر آئیں گے ۔بات صرف پاکستان یا ہندوستان کی نہیں ۔ ایران ، عراق، شام ، مشرق وسطیٰ ہو یا بلخ بخارا سے کاشغر تک چلے جاؤ۔ آپ کو ملتانی کاشی گری کے رنگ فیروزی اور نیلا نظر آئیں گے ۔سرائیکی اجرک کے رنگ بھی یہی ہی ہیں ۔ ان رنگوں اور ان رنگوں کے پھولوں کی تاریخ پانچ ہزار سال ہے ۔ ان رنگوں میں سرائیکی اجرک متعارف کرا کر ہم نے اپنی پانچ ہزار سال کی تاریخ کو زندہ کیا ہے۔ یہ صرف سرائیکی اجرک ہی نہیں سرائیکی قوم کی پانچ ہزار سال بعد ایک نیا جنم ہے۔سرائیکی اجرک کے رنگوں کو ہر جگہ پسند کیا گیا ۔ سرائیکی اجرک کے رنگ دیکھ کر آنکھیں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے ۔ سرائیکی اجر کے فیروزی اور آسمانی رنگ ہمارے وسیب کے قدیم رنگ ہیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ وسیب کے لوگ ان خوبصورت رنگوں کے ذریعے اپنی قدیم ثقافت اور قدیم اجرک کو ایک بار پھر سے زندہ کر رہے ہیں۔ رفعت عباس نے سچ کہا کہ : اساں تاں نیلیاں سلھاں اُتے پھل بنْاونْ آلے ہُنْ جے نوبت وحٖ پئی اے تاں ویس وٹیندے پئے ہیں