ڈاکٹر محمد سلیم مظہرجس قدر با ذوق اور با ادب ہیں، اس سے کہیں زیادہ وسیع الظرف بھی ہیں۔ وہ نہایت حلیم الطبع اور سلیم الفطرت انسان ہیں، یہی وجہ ہے کہ قدرت نے انھیں بے پناہ نوازا ہے۔ اورینٹل کالج کے شعبۂ فارسی میں ان کے زمانۂ طالب علمی سے عرصۂ تدریس اور ، رئیسِ شعبہ ، ڈین اور پرو وائس چانسلر جامعہ پنجاب سے لے کے وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی تک کا تمام سفر میری نظروں اور زمانے کی خبروں میں ہے۔ اس دل ربائی اور خوش ادائی کی بابت یہی کہا جا سکتا ہے: یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا شاہینوں کے شہر سرگودھا کے بیچوں بیچ واقع سرگودھا یونیورسٹی ویسے بھی اہلِ علم و دانش سے بھرپور ہے۔یہاں شعبۂ اُردو اور مشرقی زبانوں کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری ڈاکٹر خالد ندیم جیسے محنتی استاد، شاعر، ادیب، باریک بیں محقق اور معاملہ فہم منتظم کے سپرد ہے۔ ڈاکٹر خالد ندیم کے اخلاص کا یہ عالم ہے کہ آپ نہایت سہولت سے انھیں ’خالص ندیم‘ کہہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم مظہر کو جامعۂ مذکور کا چارج سنبھالے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن اس مختصر ترین عرصے میں دو بہترین تقاریب کا تو مَیں خود چشم دید معترف ہوں ۔چوبیس اور پچیس نومبر کو یہاں ’’فکرِ اقبال: ماضی، حال ، مستقبل‘‘ کے موضوع پر ایک بھرپور قومی کانفرنس کا انعقاد ہوا ۔ چار دورانیوں پر مشتمل اس کانفرنس میں ملک بھر سے معروف ماہرینِ اقبال اور معقول اہلِ قلم کو مدعو کیا گیا ،جن کی گفتگو اور جستجو سے شاید ہی فکرِ اقبال کا کوئی پہلو مخفی رہ پایا ہو۔ اسی طرح نو دسمبر کی شام ایک وسیع و عریض مزاحیہ مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ وسیع و عریض اس لیے کہ شائقین کی متوقع شرکت کے پیشِ نظر اس کا انعقاد کسی ہال ، آڈیٹوریم یا ایوانِ تہ و بالا میں کرنے کی بجائے یونیورسٹی کے کرکٹ میدان میں کیا گیا۔ دعوت نامے پہ ’جائے وقوعہ‘ کی بابت پڑھ کے ہم نے ایک دو احباب سے دریافت بھی کیا کہ یہاں پہ مشاعرہ پڑھا جائے گا یا کھیلا جائے گا؟ مشاعرے میں جوش و تشویق سے لبالب لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہجوم دیکھ کے احساس ہوا کہ اس محفل کا اہتمام سرگودھا یونیورسٹی کرکٹ گراؤنڈ کی بجائے دنیا کے سب سے بڑے میدانوں ملبورن یا کلکتہ سٹیڈیم میں ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ کلکتہ ہی سے یاد آیا کہ ہم ان دونوں تقاریب سے وہی یادیں لے کر لَوٹے جو مرزا غالب میر امن کی ’باغ و بہار‘ والے باغ و بہار شہر کلکتہ سے لے کے آئے تھے۔ کسی نے ان سے اس شہر کی بابت دریافت کیا تو انھوں نے برملا فرمایا تھا: کلکتے کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں اِک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے اس شعر میںکلکتے کی جگہ ’سرگودھے‘ پڑھ لیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ ہمیں یاد ہے کہ اقبال کانفرنس کے تیسرے سیشن میں شعبۂ اُردو کی ایک استاد ڈاکٹر عابدہ نسیم نے ’ اقبال اور تصورِ زن‘ کے حوالے سے نہایت عمدہ اور دلچسپ مضمون پڑھا اور طالبات سے بھرے ہال سے بے پناہ داد وصول کی۔ انھوں نے اقبال کے اس تصور کو سراہنے کے ساتھ ساتھ دبے لفظوں میں اقبال اور پوری مرد برادری کے خلاف کچھ شکوے بھی دائر کیے۔ ہم نے اپنی باری پہ اس مضمون کی تعریف کے ساتھ اقبال کے دفاع میں عرض کیا کہ ہمارے دانائے راز کی عورت نوازی کے اس جذبے کو کیا کہیں گے کہ انھوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں پوری تین شادیاں کیں۔ ’بانگِ درا‘ کی متعدد نظمیں نسائی الفت کے احساس سے چھلک رہی ہیں۔ اپنے دل کا حال جس تفصیل سے انھوں عطیہ فیضی کے نام خطوط میں بیان کیا، اتنا تو شاعری میں امتِ مسلمہ کا بھی نہیں کیا۔ ہم نے ان محترمہ کو جرمنی کی مس ویگے ناست کے نام اقبال کے اس خط کا مطالعہ کرنے کا بھی مشورہ دیا، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ کبھی کبھی تو پوری دنیا میری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے، صرف ایک چہرہ یاد رہ جاتا ہے اور وہ چہرہ اپنی دوست اور استاد ایما ویگے ناست کا ہے۔ جہاں تک مزاحیہ مشاعرے کا تعلق ہے ، وہ اسلام آباد سے بنفسِ نفیس تشریف لائے جناب انور مسعود کی صدارت میں ہوا، اسلام آباد ہی سے زعفرانی مشاعروں کی روایت کو مستحکم کرنے والے جناب ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور عزیز دوست ڈاکٹر عزیز فیصل بھی شریکِ محفل تھے۔ لاہور سے راقم کے ہمراہ ڈاکٹر طاہر شہیر اور برادر مُرلی چوہان مشاعرے اورسفر میں خوش گوار شرکت کے مرتکب ہوئے ۔ جناب سلمان گیلانی نے اپنی گوناں گوں مصروفیات کے سبب لاہور کی بجائے فیصل آباد سے اپنی شمولیت کو یقینی بنایا ۔ پیارے دوست ڈاکٹر بدر منیر اپنے تمام جوہر سمیٹے، جوہر آباد سے آن براجے۔ڈاکٹر سعید اقبال سعدی گوجرانوالہ سے براہِ راست پہنچے، جبکہ ایک شاعر خلیل ساحر چنیوٹ سے تشریف لا کر مشاعرے کا حصہ بنے۔ موجودہ معاشرتی افرا تفری اور سماجی کشاکش کے دور میں ہم سمجھتے ہیں کہ جتنا لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے کی ضرورت ہے اتنی اشد ضرورت یا اہمیت شاید کسی اور چیز کی نہیں، اس سلسلے میں ہمارا تو پختہ عقیدہ ہے کہ زندہ دل ہونا، زندہ ہونے سے بھی زیادہ اہم ہے۔بے شمار دانش مند اس بات پہ متفق ہیں کہ کسی چہرے پہ کھلنے والی مسکراہٹ دنیا کا سب سے بڑا حسن ہے۔ اس مسکراہٹ کا سبب اگر آپ ہیں تو آپ اس کائنات کے عظیم ترین انسان ہیں۔ نو دسمبر کی رات کو ہزاروں لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے کا سبب جملہ شعرا اور وائس چانسلر جناب ڈاکٹر مظہر سلیم کے ساتھ ساتھ ان کی پوری ٹیم تھی۔ مزاحیہ مشاعرے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس میں کلام کے ساتھ ساتھ غمزہ و عشوہ ادا کا جادو بھی سر چڑھ کے بولتا ہے، جس کا اہلِ ہنر نے وہاں خوب خوب مظاہرہ کیا۔ مشاعرے میں پیش کیا جانے والا اپنا ایک قطعہ پیشِ خدمت ہے: اِک صدی پہلے کہا تھا قوم سے اقبال نے ایک ہوںمسلم حرم کی پاسبانی کے لیے رات مجھ کو خواب میں وہ آپ ہی فرما گئے ’نیک‘ ہوںمسلم حرم کی پاسبانی کے لیے