جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے بات سنتا ہے تو آنکھیں بھی بچھاتا ہے وہ بات کرتا ہے تو دامن بھی بچا جاتا ہے دنیا کا اپنا چلن ہے۔ یہاں سب چلتا ہے تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا۔ یہ مومن کا دکھ تھا اور اس نے یہ بھی کمال کی بات کی تھی کہ نارسائی سے دم رکے تو رکے۔ میں کسی سے خفا نہیں ہوتا جینا بھی ایک سلیقہ اور قرینہ ہے جو سیدھے لوگوں کو نہیں آتا۔ آج دل چاہا کہ تخلیق کی دنیا کی کوئی بات کی جائے کہ حافظ و غالب و اقبال سے محبت ہے ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے زمانے کے نہیں۔ تخلیق سے مراد صرف ادب عالیہ نہیں کچھ عام سی باتیں بھی تو ہو سکتی ہیں کہ کچھ لطف لیا جائے۔ ویسے تو برائوننگ نے خوبصورت بات کی تھی کہ Poetry is not a cup of teaظاہر ہے یہ ایک سنجیدہ عمل ہے مگر اس بات کو بھی تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شوخی اور دل لگی میں ہلکی پھلکی بات کر دے۔ مثلاً میں نے نخشب زھرہ کی پوسٹ پڑھی کہ وہ بعض اوقات ایسی چائے بناتی ہے اگر بادشاہ جہانگیر بھی پیتا تو وہ اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کرتا مگر میرا خیال ہے کہ جہانگیر بچتا تو ہاتھ کاٹنے کا حکم دے سکتا۔ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی بے ضرر سی باتیں زندگی میں رنگ بھر دیتی ہیں اور یہی یادیں آنے والے وقت کو جگمگاتی اور خوشگوار بناتی ہیں۔ پی ٹی وی کے دنوں کی یادیں کبھی گدگداتی ہیں۔ ایک دن شجاعت ہاشمی کہنے لگے یار سعد ایک طویل دورانیے کا یعنی 90منٹس کا ڈرامہ لکھو ان دنوں میری میڈم نوید شہزاد اور قوی کا ڈرامہ دور جنوں چل رہا تھا۔ پھر وہ فرمانے لگے کہ اس ڈرامے میں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اس کا ہیرو 52سال کا ہو اس کے ساتھ ہی ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور قہقہہ بار ہو گئے یقینا آپ بھی سمجھ گئے ہونگے۔ حفیظ جالندھری نے بھی تو کہا تھا ابھی تو میں جوان ہوں: اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے منزل کی طرف دوگام چلوں اور سامنے منزل آ جائے اس بات کا خیال مجھے اس لئے آیا کہ ان دنوں عمران خاں صاحب ارطغرل ڈرامے کے اداکاروں سے میل ملاقات رکھے ہوئے ہیں سنتے ہیں کہ کسی ڈرامے وغیرہ کے بنانے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے تاریخی نوعیت کا کو ئی آئیڈیا سامنے ہو ،ہو سکتا ہے یہ ڈرامہ کسی سیاسی صورتحال پر ہویا اس کا پس منظر عسکری ہو۔ ڈرامے سے مجھے خیال آیا کہ نوے کی دھائی میں میں نے ڈرامہ سیریل شناورلکھی جس کی کاسٹنگ بھی ہو گئی تھی معروف پروڈیوسر طارق جمیل اس کے پروڈیوسر تھے جو ان دنوں کراچی سے آنچ کر کے آئے تھے کسی وجہ سے وہ سیریل نہ ہو سکا اور میں کالم نگاری کی طرف آ گیا ایک روز جب میں ایک اخباری مذاکراے میں بیٹھا تھا تو طارق جمیل صاحب کہنے لگے گویا آپ اب چھوٹے ڈرامے سے بڑے ڈرامے کی طرف آ گئے ہو۔ یہ تذکرہ میں نے اس لئے کیا کہ شاید سب فنون لطیفہ کا حصہ ہی ہے۔ شاید سیاست میں صحافت سے بھی بڑھ کر ڈرامہ ہے۔ : ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا ہے ہمیں کیا خبر کس نے تری سمت ہمیں موڑ دیا ویسے یہ بھی کمال ہے کہ آدمی جو کام حقیقت میں نہ کر سکے وہ ڈرامے میں ممکن ہے۔ خان صاحب تو بہتر جانتے ہیں کہ جب تک وہ سیاست میں عملی طور پر نہیں آئے تھے ان کی باتوں میں کتنا زور تھا مگر جب وہ وزیر اعظم بنے تو پتہ چلا کہ باتوں سے کام نہیں چلتا۔ ان کے سارے خواب ایک ایک کر کے بکھر گئے۔ افسانے سے حقیقت کو کیا علاقہ۔ تمام وعدوں اور دعوئوں کی ناکامی کے باوجود ان میں ایک اعتماد ہے۔ ویسے کوئی حرج نہیں کہ سرکاری سطح پر کوئی ڈرامہ بنایا جائے جس میں عوام کو صحیح حقائق بتائے جائیں کہ کیسے وزیر اعظم کو بدنام کرنے کے لئے مافیاز چینی اور آٹا مہنگا کرتے ہیں کس طرح دوائیوں کی قیمتیں بار بار بڑھائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو متنفر کیا جائے اور اس ڈرامے میں یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بھی عالمی طاقتیں ایک سازش کے تحت آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ذریعہ بڑھواتی ہیں اور وہ باقاعدہ وقت کے وزیر اعظم کو شرائط کے تحت قرض دے کر بلیک میل کرتی ہیں۔ وگرنہ وزیر اعظم جیسا غریبوں کا ہمدرد اور عوام کا خادم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔اس میں مافوق الفطرت کردار بھی رکھا جا سکتا ہے: اس کا معاملہ پراسرار ہو: کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں اس ڈرامے میں اپوزیشن کے لوگوں کو سچ مچ چور اور ڈاکو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جا سکتی۔ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے انہیں عبرت کا نشان بھی بنایا جا سکتا ہے۔ میں نے تو ڈرامے کا ایک خاکہ سا پیش کیا ہے اس کو بہت بہتر انداز میں ڈرافٹ کیا جا سکتا ہے ۔ اس سکرپٹ لکھنے کا مسئلہ بھی ہو گا حسن نثار صاحب اچھے ہیں مگر وہ مانیں گے نہیں اور ہارون رشید بھی شاید انکار کر دیں۔ یقینا اس ڈرامے میں نیب کا کردار بھی ہو گا۔ یوں ایک وسیع تناظر میں اس ڈرامے کو استوارکیا جا سکتا ہے۔ اس میں ارطغرل کے اداکار بھی لئے جا سکتے ہیں۔لوگ بس ڈرامہ دیکھنا چاہتے یں وہ روٹی دال کو بھول کر ڈرامہ دیکھیں گے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: چٹان چوٹ پہ چنگاریاں دکھانے لگی مگر تراشنا شہکار بھی ضروری تھا