بے رحم عالمی سرمایہ داری نظام اور سٹی بازی پر مبنی مالیاتی (فناشل)سرمایہ کاری کس طرح چھوٹے ترقی پذیر ملکوں کو معاشی طور پرتباہ کرکے رکھ دیتے ہیں، اس کی ایک تازہ ترین مثال سری لنکا ہے۔ یہ ملک ایک بڑے جزیرہ اورسوا دو کروڑ آبادی پر مشتمل ہے۔ان دنوں اِس ملک کے پیٹرول پمپوں پر لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں کہ پیٹرول نایاب ہے۔ملک بیشتراوقات اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔بجلی دستیاب نہیں۔کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ غریب لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔سری لنکا کا معاشی بحران کم سے کم دو برس سے چل رہا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے صورتحال زیادہ بگڑ گئی۔اس کی کرنسی کی قدر اتنی کم ہوگئی ہے کہ ایک امریکی ڈالر سری لنکا کے تقریباً تین سو روپے کے برابر ہوگیا ہے۔پچھلے دو برسوں میںاس کی قدر میں ایک سو روپے سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ معاشی بحران کی فوری وجہ تو یہ بنی کہ کورونا وبا کے باعث گزشتہ دو برسوںمیںسری لنکا میں سیاحوں کی آمد تقریباً ختم ہوگئی تھی، جس سے ملک میں زرمبادلہ کی بہت قلت ہوگئی۔ ملک کی مجموعی آمدن کا بارہ فیصد حصہ سیاحت پر مبنی تھا۔زرمبادلہ کی قلت کے باعث سری لنکا عالمی منڈی سے تیل‘ دوائیں‘ کھانے پینے کا سامان وغیرہ خریدنے کے قابل نہیںرہا۔ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بجلی نہیں بناسکتا۔انیس سو اڑتالیس میںسری لنکا برطانیہ سے آزاد ہوا تھا۔یہ اس کی تاریخ کا سب سے بدترین بحران ہے۔ موجودہ صورتحال اُنیس سو تیس ایسی ہے جب عالمی کساد بازاری اور ملیریا وبا نے سری لنکا کا بھرکس نکال دیا تھا۔ یوں تو کورونا وبا نے سری لنکا کے معاشی بحران کو مہمیز دی لیکن اس سے پہلے بھی اسکی معیشت اچھی حالت میں نہ تھی۔ طویل عرصہ سے اس ملک کے بنیادی اشاریے پاکستانی معیشت کی طرح خاصے کمزور ہیں۔یہ قرضوں کا عادی ملک ہے۔ ملکی اور غیر ملکی قرضے اسکی بڑی کمزوری ہیں۔ کئی مسائل کی جڑ ۔ آج سری لنکاکا چالیس فیصد قرض عالمی کیپیٹل مارکیٹ سے حاصل کیا گیا ہے اور صرف دس فیصد چین سے لیکن مغربی میڈیا جھوٹاپروپیگنڈہ کرتا ہے کہ سری لنکا کی معیشت چین کے قرض کے وجہ سے مصیبت کا شکار ہوئی ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں بھارتی حکومت نے بھی سری لنکا کو تقریباًڈھائی ارب ڈالر کی امدادفراہم کی ہے۔چین بھی سری لنکا کوبحران سے نکلنے کی خاطر قرض دے رہا ہے۔ اس سے پہلے لیے گئے اُدھار کی واپسی ری شیڈول کررہا ہے۔ کولمبو سرکار نے عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے بھی مدد مانگ لی ہے۔دو سے تین ارب ڈالر حاصل کرنے کیلیے کوشش کررہی ہے۔ حالانکہ چند ماہ پہلے تک کولمبو حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے کے خلاف تھی۔ اپریل کے وسط میں سری لنکا کا روایتی‘ مقامی نیا سال شروع ہوتا ہے۔لوگ اسے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ حکومت اس موقع پرعوام کے لیے کچھ آسانی پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ ملکی معیشت کو پٹری پر چڑھانے کی خاطر جو سخت‘ نامقبول فیصلے کرنے کی ضرورت ہے انہیں نیا سال شروع ہونے کے بعد تک ٹال دے۔ سری لنکا جنوبی ایشیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے عالمی سرمایہ داری نظام سے جڑنے کی خاطر نیولبرل معاشی پالیسی اختیار کی۔ صدر جے وردھنے کی حکومت امریکہ کے قریب تھی۔انیس سو ستّر کی دہائی کے اواخر میں انہوں نے نجی شعبہ کو فروغ دینا شروع کیا۔ ٹریڈ یونینوں کو کچل کررکھ دیا۔ جلدہی یہاںانڈیا نے سری لنکا کی تامل ہندو اقلیت کو مدد فراہم کرکے خود مختاری کی مسلح تحریک شروع کروادی اور ملک میںخانہ جنگی شروع ہوگئی۔ یہی پالیسی‘طریقہ کار انڈیا بلوچستان اور کراچی میں اختیار کرتا ہے۔ بدامنی کے ماحول میں بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری آنا رُک گئی۔ انڈیا کا مقصد پُورا ہوگیا۔وہ سری لنکا کو ایک طاقتور معیشت نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔چھبیس برس تک سری لنکا خانہ جنگی کی لپیٹ میں رہا۔معیشت نے تباہ ہونا ہی تھا۔سنہ دو ہزار نو میں جا کر راجاپاکسے نے بزور طاقت تامل علیحدگی پسند تحریک کو کچل دیا اور امن قائم کیا۔یہ کام ہوتے ہی بیرونی سرمایہ کاری نے سری لنکا کا رخ کیا لیکن پیداواری شعبہ میںنہیں بلکہ مالیاتی(فنانشل) شعبہ میں۔ اسٹاک مارکیٹ کی سٹے بازی میں۔ عارضی طور پر معاشی ترقی کا بلبلہ بنا۔دنیا میں شور مچنے لگا کی سری لنکا تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے تاکہ سٹے باز زیادہ مال کماسکیں۔ درآمدات کے دروازے کھول دیے گے۔ آج سری لنکا کی درآمدات اسکی برآمدات سے اسّی فیصد زیادہ ہیں۔ اسے آٹھ ارب ڈالر کے تجارتی خسارہ کا سامنا ہے۔یہاں سے سری لنکا کے قرضوں کے بحران نے جنم لیا،جس کے نتائج آج پوری سنگینی کے ساتھ سب کے سامنے ہیں۔اس جعلی معاشی ترقی کے شور میں سری لنکا کی حکومت نے زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری بہت کم کردی۔ حکومت نے کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد کا پھاٹک کھول دیا۔ اس حکمت عملی کے نتیجہ میں سری لنکا کی زرعی پیداوار کم ہوگئی اور خودکفالت حاصل نہ ہوسکی۔ ذہن میں رکھیے پاکستان بھی دالیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے درآمد کرتا ہے اور کم مقدار میں گندم اور چینی بھی۔سنہ دو ہزار اکیس میں کورونا وباکے باعث سیاحت سے زرمبادلہ آنا بند ہوگیا تھا۔ ملک اس قابل نہیں رہا کہ کیمیائی کھادیں درآمد کرے جس سے زرعی اجناس کی پیداوار مزید کم ہوگئی۔اس بحران کی ایک اور وجہ تھی کہ موجودہ حکومت نے کیمیائی کھادوں کی بجائے قدرتی نامیاتی کھادوں کو فروغ دینے کی پالیسی بنائی لیکن غلط وقت پروبا کے دوران عجلت میںاس پر عملدرآمد کیا۔یہ تجربہ بُری طرح ناکام ہوگیا۔اس کے باعث چاول کی پیداوار میں بیس فیصد کمی ہوگئی۔اسکی قیمت پچاس فیصد بڑھ گئی۔چائے کی پیداوار میں کمی سے معیشت کو بیالیس کروڑ ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا۔سری لنکا کا معاشی بحران بہت حد تک پاکستا نی معیشت سے خاصامشابہہ ہے۔ درآمدات کا برآمدات سے زیادہ ہونا۔پیداواری شعبہ کی بجائے رئیل اسٹیٹ اور فنانشل شعبہ میںسرمایہ کاری۔بھاری بیرونی قرضے۔یہ سب عوامل ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ اگر ہم نے بروقت پالیسیوں کو درست نہ کیا۔درآمدات کم نہ کیں اور پیداواری شعبہ پر خاص توجہ نہ دی تو ہمارا معاشی بحران اِسی طرح سنگین ہوسکتاہے۔