دو کروڑ بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل جزیرہ نما ملک، سری لنکا، کو اِس وقت اَپنی تاریخ کے اِنتہائی نازک معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے، حکومتی وزراء نے استعفیٰ دے دیا ہے اور سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔ کرفیو لگا دیا گیا ہے جبکہ مظاہرین کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور صدر راجاپاکسے کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ عوام کا غصہ اس وقت ابل پڑا جب مظاہرین نے جمعرات 31مارچ کو کولمبو میں صدر گوتابایا راجا پاکسے کی نجی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا اور قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے حصول کے بعد سے معاشی بَدحالی کا یہ سب سے بڑا بحران ہے جسکا سامنا اِس وقت سری لنکا کررہا ہے،بدترین معاشی بدحالی کی وجہ سے عوام میں بے اِطمینانی بڑھ گئی ہے اور مہنگائی کی وجہ سے بنیادی اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ سیاسی بحران نے ملک میں جاری غیریقینی کی کیفیت میں مزید اِضافہ کردیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اِقتصادی بحران برسوں سے جاری ہے، جس کی وجہ تھوڑی سی بد قسمتی اور بہت ساری حکومتی بدانتظامی ہے۔ پچھلی دہائی کے دوران، سری لنکا کی حکومت نے عوامی خدمات کو فنڈ دینے کے لیے غیر ملکی قرض دہندگان سے بہت زیادہ رقم ادھار لی ہے۔ قرض لینے کا یہ سلسلہ سری لنکا کی معیشت پر ہتھوڑے کی چوٹ کی طرح مسلسل ہوا ہے جس کے پیچھے شدید مون سون اور کورونا جیسی قدرتی آفات سے لے کر معیشت کو سنبھالنے کی غرض سے کیے گئے کیمیائی کھادوں پر حکومتی پابندی جیسے اقدامات جس سے کسانوں کی فصلیں تباہ ہوئیں اور معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی پہنچا۔ سری لنکا کی اقتصادی خرابی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔ اِن میں سے 2019 کے ایسٹر بم دھماکے کے ساتھ ساتھ کوویڈ 19 کی وجہ سے عالمی سفری پابندیوں کی وجہ سے جزیرے نما ملک کی سیاحت پر منحصر معیشت کو ہونے والا نقصان شامل ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ زیادہ شرح سود پر بھاری قرضوں کا حصول بھی موجودہ معاشی بحران کی وجوہات میں شامل ہے کیونکہ بھاری قرضوں کی عدم ادائیگی نے مزید قرضوں کے حصول پر مجبور کیا اور جس سے ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑ گیا۔ درمیانی آمدنی والے ملک کے طور پر ابھرنے کے باوجود، سری لنکا براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو راغب کرنے یا اپنی برآمدی آمدنی کو متنوع بنانے اور بہتر بنانے میں ناکام رہا ہے جبکہ اپنی ترقی کو بین الاقوامی خودمختار بانڈ (ISB) کے ذریعے اور دوسرے ممالک سے اکثر زیادہ شرحِ سود اور ادائیگی کی مختصر مدتوں پر قرض لے کر برقرار رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں بیرونی قرضے کا مجموعی حجم 2021 تک 35 بلین امریکی ڈالر تک ہوگیا۔ اِس تناظر میں، چین بھی بتدریج سری لنکا کے لیے سب سے زیادہ قرض فراہم کرنے والوں میں سے ایک بن گیا۔ اَخبارات میں شائع ہونے والے اَعدادوشمار کے مطابق سری لنکا نے بین الاقوامی خودمختار بانڈ (ISB) کے ذریعے حاصل کیے گئے قرض کا 36 فی صد، اِیشیائی ترقیاتی بینک کا 15 فی صد، چین سے حاصل کیے گئے قرض کا 20 فی صد، عالمی بینک کا 10، جاپان کا 9 اور اِنڈیا سے حاصل کیے گئے قرض کا 2 فی صد ادائیگی کرنا باقی ہے۔ تاہم، قرض کی ادائیگی کی صورت حال حالیہ برسوں میں ٹیکس محصولات میں کمی کے ساتھ بدتر ہو گئی ہے۔ جیسا کہ پہلے اِس بات کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے کہ سیاحت، سپلائی چینز اور ترسیلات زر پر COVID کے اثرات؛ اور نامیاتی کاشتکاری کی طرف جانے کے من مانی فیصلے نے افراط زر اور ملک کے غیر ملکی ذخائر کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، حالانکہ قرضوں کی ادائیگی کے وعدے بدستور برقرار ہیں۔ غیر ملکی ذخائر کی کمی نے سری لنکا کی خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری درآمدات کو متاثر کیا ہے، اور ایک کثیر جہتی بحران کا باعث بنا ہے۔ اِس کے نتیجے میں، سری لنکا کے پاس 2.3 بلین امریکی ڈالر کے غیر معمولی ذخائر رہ گئے ہیں جب کہ اِس سال اِسے 7 بلین امریکی ڈالر کا قرض ادا کرنا ہے۔ لیکن ان عوامل کے علاوہ، عوامی غم وغصہ کی اِیک اور واضح وجہ راجا پاکسے خاندان کا حکومت پر کنٹرول اور واضح معاشی بدانتظامی اور بدعنوانی بھی ہے۔ مثال کے طور پر، صدر، وزیر اعظم، خزانہ اور آبپاشی کے وزراء سبھی بھائی ہیں، جب کہ صدر کا بھتیجا وزیر کھیل ہے، اِس طرح عوام کی جانب سے راجا پاکسا کے خاندان پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے جو کہ کسی حد تک معقول معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک ہی خاندان میں اِس حد تک اِقتدار کا اِرتکاز معاشروں میں ناپایئداری کو فروغ دیتے ہیں جبکہ ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم یہ امید کی جاتی ہے کہ سری لنکا بحران پر قابو پانے اور امن و امان اور معاشی استحکام کی علامت کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اَلبتہ سری لنکا کی حکومت کو عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور معاشی استحکام کے لیے ایک جامع روڈ میپ تشکیل دینا چاہیے، جس میں عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک سری لنکا کو بحران سے نکالنے میں ہر ممکن مدد کریں کیونکہ سری لنکا میں موجودہ معاشی بحران پر قابو پانا ممکن نہ ہو سکا تو اِس کے منفی اثرات سے خطے کے تمام ملک متاثر ہوں گے جبکہ سری لنکا کے موجودہ بحران میں سارک ممالک کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ سارک کی تنظیم کو موثر بنانے کی اَشد ضرورت ہے جو کہ ہندوستان اور پاکستان کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے غیر موثر ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فعال علاقائی تعاون کی موجودگی میں اِس طرح کے معاشی بحرانوں سے باہمی طور پر نِمٹنا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔