رمضان المبارک بے شمار فضیلتوں ،رحمتوں ،عظمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے جس میں ایک نیکی کیلئے بے حدوحساب ثواب مل جاتاہے۔اس مقدس مہینے میں ہم جس اخلاقی ا و روحانی تربیت کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں وہ ہمیں اخلاق وکردارکی معراج تک پہنچاسکتاہے۔گویا رب تعالیٰ نے ماہ رمضان کی صورت میں اپنے بندوں کو ایک عظیم تحفہ عنایت فرمایا ہے۔ ہم چاہیں تواس میں صدق دلی سے اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں اور اپنے اعمال کو نیک کریں تاکہ اپنے رب سے یہ پکاعہدکرکے کہ اب ہم تیری نافرمانی نہیں کریںگے، تواس مہینے میں اپنے گناہ معاف کرواسکتے ہیں۔جس نے فلسفہ صوم کومکمل طورپر سمجھ لیابلاشبہ وہی کامیاب ہے ۔ روزہ محض کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ یہ پورے جسم، ذہن اور روح کی پاکیزگی اور تمام قسم کے لغو اور فضول کامو ں سے بچنے کا نام ہے۔اس بابرکت مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کیلئے ضروری ہے کہ عبادت کے معنی ومفہوم کوسمجھا جائے ۔روزہ ایک عظیم عبادت ہے جس کا بدلہ اللہ تعالی بندے کو خود عطا فرمانے کا وعدہ فرماچکے ہیں۔ بھارتی بربریت نے جنت نما کشمیرکے حسن و جمال اورشگفتگی کاخاتمہ کردیا ۔آج سر زمین دردو کسک، افسردگی وبے چار گی ، حسرت و غم کا چمن بنی ہوئی ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں ہرطرف تاحد نظراورروزوسعت پانے والے مزارات شہداء میںمعلوم ونامعلوم قبریں بھارتی بربریت کی انمٹ گواہی پیش کررہی ہیں۔جب شانوں پر غم کے پہاڑ ہوںتویہ اندازہ لگاناکوئی مشکل کام نہیں کہ مقبوضہ کشمیرکاہر مسلمان کس قدراندوہ و دلگیرہے۔ملت اسلامیہ کشمیر کی مظلومیت کے لرزہ خیز سانحات دیکھ کرہرباضمیرشخص کے قدم لڑکھڑاتے ہیں اور وجود لرزتا ہے ۔ملت اسلامیہ کشمیرکی لوح تقدیر پرفی الحال نوجوانان کشمیرکابہتاہوالہو ہی نظرآتاہے اوربس ۔البتہ عدواس امرکوخوب سمجھتاہے کہ کشمیریوںکا یہ خون رائیگاں نہیں ہوگاضروررنگ جمادے گااورایساطوفان برپاکرکے رکھ دے گاکہ بھارت کوکشمیرچھوڑناپڑے گا۔ دی ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپئپرڈ پرسنزیااے پی ڈی پی اور جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے سری نگرمیں’’کنٹرول کا آلہ‘‘کے عنوان سے560صفحات پر مشتمل مشترکہ طور پر ایک رپورٹ جاری کی ہے ۔ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں 1990ء سے آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں مبینہ طورپر بھارت کی طرف سے جاری مبینہ ٹارچر پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جبکہ رپورٹ میں 1947ء سے جموں کشمیر میں ہوئے ٹارچر کا مرحلہ وار تاریخی پس منظر پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں ہو رہے ٹارچرکے واقعات کی تحقیقات بین الاقوامی سطح پر کرائیں۔ رپورٹ میں بھارت سے کہاگیاکہ وہ کشمیری عوام پرہو رہے ٹارچر اورتعذیب کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کو تسلیم کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں یکم رمضان المبارک سے تادم تحریر پندرویںرمضان المبارک یعنی10سے21مئی کے تک بستیوں کے محاصروں اور خانہ تلاشیوں کی آڑ میں ریاستی دہشت گردی جاری رکھتے ہوئے 16کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا ہے۔لیکن اپنے گبروجوان بیٹوں اورکڑیل نوجوان بھائیوں کے جنازے مسلسل کندھوں پررہنے کے غم وحزن اورجگرچیردینے والے ان زخموں کوسہلانے اورجیلوں اورعقوبت خانوں میں پڑے ہزاروںابنائے کشمیر کی کمرتوڑابتلائوں اور کلفتوں کادردسہنے،آگ اورخون کے دریادرپیش ہونے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مساجد میں افطار کی سادہ مگرپروقارتقاریب کا اہتمام کیاجاتاہے رمضان المبارک کانصف عرصہ گذرجانے کے بعدیہ دلفریب تقاریب اب شباب پر ہیں،وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سرینگر اور وادی کے دیگر بڑے قصبوں میں اس رجحان میں تیزی آرہی ہے۔ سرینگر کی بیشتر بڑی مساجد میں مقامی منتظمین کی طرف سے اجتماعی افطاری کا انتظام کیا جارہا ہے،جس کے دوران سینکڑوں روزہ دار باہم مل کر افطاری کرتے ہیں۔ مساجد میں نماز مغرب یا افطار سے قبل ہی بڑے بڑے دستر خواں لگائے جاتے ہیں اور ان پرکھجور، فرنی، حلوہ، مشروبات اور تازہ پھل روزہ داروں کیلئے پیش کئے جاتے ہیں۔ پہلے پہل مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی افطاری کارحجان نہایت کم تھاسری نگرکی خاص خاص مساجدمیں خال خال یہ رحجان پایاجارہاتھاجہاں محلے کے اہل ثروت محلے کے نمازیوں کے لئے افطاری کااہتمام کرتے نظرآرہے تھے ۔ لیکن گذشتہ تین عشروں سے جاری بھارتی جبروقہرنے مقبوضہ کشمیرکی اخوت اسلامی کوآنچ دی اورقہرناک مظالم جھیلنے والی وادی کشمیرمیں وقت کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک میں اجتماعی افطاری کے اہتمام نے عروج پایا اوریوںاخوت اسلامی کے عملی مظاہرپیش ہورہے ہیں۔اب کی صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی مساجد میں افطار کا منظر دلفریب رہتا ہے۔اجتماعی افطاری کے منتظمین کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کو بھر پور دعوت کا ذریعہ بناتے ہوئے اپنی مقامی مساجد میں نمازیوںسے اپنا تعلق مضبوط کرنا اس کا مقصد ہے۔اجتماعی افطاری کے وقت ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیںاور منتظمین روزہ داروں کو افطار کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ دریں اثنا جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی وادی کشمیر میں سحری کے وقت ڈھول بجاکر لوگوں کو جگانے کی روایت برقرار ہے۔ تاہم یہ فریضہ انجام دینے والے سحر خوانوں کی تعداد ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی سری نگر کے علاوہ وادی کے دوسرے علاقوں میں لوگوں کو سحری کے وقت نیند سے جگانے کے لئے سحر خوانوں کا سڑکوں پر نکلنا شروع ہوگیا ہے۔سحر خوان لوگوں کو نیند سے جگانے کے لئے ڈھول بجانے کے علاوہ تلاوت قرآن اورحمدو نعت کی ریکارڈنگ چلاکر عوام الناس کویہ احساس دلاتے ہیں کہ سحری کامقدس وقت ہواچاہتاہے اٹھیں اور سحری سے لطف اندوزہوئیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دورجدید میں جبکہ ہرگھرکے فردکے پاس موبائل فون اور ان میں بج اٹھنے والے الارم کی سہولت موجودہے کے باوجود بھی وادی میں سحر خوانوں کا لوگوں کو سحری کے وقت نیند سے جگانے کا سلسلہ نہیں رکا۔ بیشتر سحرخوانوں کا کہنا ہے کہ وہ رمضان المبارک کی آمد کا انتظار سال بھر کرتے رہتے ہیں۔ تاہم سحر خوانوں کی تعداد ہر گزرتے سال کے ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ہلال رمضان نمودارہونے اورماہ رمضان المبارک کی آمدکے ساتھ ہی سری نگر سمیت وادی بھر کے تمام ڈھابے ، ہوٹل اورریستوران دن کے لئے بند ہوگئے جبکہ سری نگر کے سول لائینزعلاقے میں واقع مشہور فوڈ اسٹریٹ جہاں رمضان کے علاوہ دن بھرلوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے بھی بندہوگئی۔تاہم سحری اورافطاری کے مواقع پربعض ڈھابے،ریستوران اور ہوٹل کھل جاتے ہیں۔ جبکہ کٹھ پتلی انتظامیہ کے اعلانات کے علیٰ الرغم ماہ صیام کے دوران مقبوضہ کشمیرمیں پانی اور بجلی کی سپلائی کی صورتحال ابتر ہے جبکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیںآسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق مقبوضہ کشمیرمیںگذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں بیس سے تیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ کٹھ پتلی انتظامیہ کے دعوے ہمیشہ کی طرح آج بھی کاغذی ثابت ہورہے ہیں ۔