ارشادباری تعالیٰ ہے: لِکُلِّ اَجَلٍ مُّسْتَقِرٌ۔ہر کام کا وقت مقرر ہے۔یہ قانون ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔کوئی کام وقت سے پہلے یا بعد نہیں ہو سکتا ۔مگر اسے سلیقے سے احسن انداز میں سر انجام دیا جا سکتا ۔ پاکستان میں ہر برس رمضان المبارک اور عید کے چاند پر تنازع کھڑا ہوتا ہے۔جس کی آڑ میں سیکولر طبقہ علمائے دین پر چڑھ دوڑتا ہے ۔اس برس بھی سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا ۔کئی قسم کے اعتراض کیے گئے ،جن میں سر فہرست دیر سے اعلان کیوں کیا گیا؟دراصل جن لوگوں نے گواہی دی ،ان تک پہنچنے،تصدیق کرنے اور گواہی کے معیار کو پرکھنے میں ایک وقت درکار تھا۔شرعی کام میں آنکھیں بند کر کے اعلان نہیں کیا جا سکتا ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب کے دورمیں بھی یہی اعتراضات تھے جبکہ مولانا سید عبد الخیرآزادکو بھی یہی مشکل درپیش۔ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے : علما انبیاء کے وارث ہیں ۔لہذا ان پر تنقید کے وقت ان کے مقام مرتبہ کو بھی مدنظر رکھا جائے ۔ پاکستان میں قائد اعظم ؒکے بعد سب لیڈر تولے گئے،اس کے معیار کا کوئی نہیں نکلا۔یہاںلیڈر جھوٹے اور دانشور جعلی۔ یاد رکھیں!چراغ بجھا کرتے ہیں، سورج نہیں۔ محمد علی جناحؒ ایک عبقری شخصیت تھے ۔سچے،قول وفعل کے پکے، غیبت، وعدہ شکنی اور خیانت سے پاک۔ رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا ۔تراویح اور روزے کا سلسلہ جاری ہے ۔اس مقدس مہینے کو خوش آمدید کہنے کے دنیا بھر میں مختلف طریقے رائج ہیں ۔ گوسائنس ٹیکنالوجی کی ترقی اورسوشل میڈیا کے دور میںاسلامی اور قدیم روایات دم توڑتی جا رہی ہیں ۔مگر کچھ باقی۔ اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں میں سب سے پہلے منادی کرنے والے حضرت بلال حبشیؓ تھے۔نبی کریم ﷺ نے حضرت بلال ؓکی ذمہ داری لگائی تھی کہ وہ مسلمانوں کو سحری کے لیے بیدار کریں۔اب بھی مکہ المکرمہ میں منادی کروانے والے فانوس اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں میں گھومتے ہیں۔ہماری مساجد میں اب بھی یہ طریقہ رائج ہے ،جس میںسحری کرنے والوں کو اعلان کے ذریعہ وقت بتایا جاتا ہے ۔ میرے آبائی گائوں کدھر شریف میں ہمارے ہمسائے چچا مہدی دھول ۔ موسم گرما ہویا سرما،وہ روزہ نہیں رکھتے تھے ۔لیکن ان کی یہ خوبی تھی کہ جب عید کا چاند دیکھنے ہم گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہوتے ،تو وہ سب سے پہلے چاند نظر آنے کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کرتے ۔نمازعید کے لیے صف اول میں بیٹھے ہوتے ۔ان کے اس طریقے سے سبھی لطف اندوز ہوتے ۔ جب لاہور شہر میں پڑائو ڈالا تو اقبال ٹائون کی گلیوں میں ڈھول بجا کر اٹھانے کا سلسلہ تھا ،جو اب ختم ہو چکا ۔قدیم دور میں اسے’’ ماسحراتی ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ماسحراتی کہلانے والے یہ لوگ پورے رمضان سحری کے اوقات میں سڑکوں، گلی، محلوں میں ڈھول، بانسری، ڈفلی، رباب وغیرہ جیسے موسیقی کے مختلف آلات تھامے گھومتے ہوئے روزے داروں کو سحری کے لیے جگاتے ہیں۔ 7 ویں صدی میں مصر کے گورنر عتبہ بن اسحاق نے اس خوبصورت روایت کی بنیاد رکھی تھی، وہ رات کے آخری پہر میں قاہرہ کی گلیوں سے گزرتے اور پکارتے : اللہ کے بندو سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ ترکی میں دور عثمانیہ کا لباس پہنے ڈرمر سحری کے وقت لوگوں کو ڈرم بجا کر جگاتے ہیں، مراکش میں روزے داروں کو جگانے کے لیے اب بھی ڈرم بجایا جاتا ہے۔جس میں ہر نوجوان بڑی خوشی سے حصہ لیتا ہے ۔ یمن میں قدیمی روایت اب بھی موجود ہے ،جس کے مطابق روزے داروں کے دروازے پر دستک دی جاتی ہے۔ کئی ملکوں میں توپ کا گولہ داغ کر افطار ی کی اطلاع دی جاتی ہے ۔مصر میں ایک جرمن ملاقاتی نے سلطان سیف الدین کو ایک توپ تحفے کے طور پر پیش کی ،تو سلطان کے سپاہیوں نے اسکا معائنہ کرنے کے لیے اس توپ کو شام کے وقت چلایا، اس وقت رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور اتفاق سے افطاری کا وقت بھی، توپ کی آواز سے شہریوں نے یہ تصور کیا کہ انہیں افطاری کا پیغام دینے کے لیے توپ کا استعمال کیا گیا ہے۔جب سپاہیوں کو یہ معلوم ہوا کہ لوگ توپ کی آواز پر افطاری کر رہے، تو انہوں نے اسے روز مرہ کا معمول بنا لیا اور ہر روز سحری اور افطاری کا پیغام توپ چلا کر دیا جانے لگا۔ یہ روایت آج تقریباً دم توڑ چکی ہے۔اس روایت کو 19ویں صدی تک قائم رکھا گیا تاہم گنجان آباد شہروں میں جگہ کی کمی کے باعث یہ روایت دم توڑ گئی۔اس روایت کے تحت افطار کے وقت گولہ داغ کر روزے داروں کو افطاری کے وقت سے آگاہ کیا جاتا تھا، تاہم اب سائرن بجایا جاتا ہے جس سے روزے داروں کو علم ہو جاتا ہے کہ اب افطار کا وقت ہو گیا ہے۔یہ روایت آج کچھ خلیجی ممالک میں اسی طرح قائم ہے، جہاں پولیس غروب آفتاب کے ساتھ ہی توپ سے ایک گولہ فائر کر کے سب کو آگاہ کرتی ہے کہ اب افطار کا وقت ہو گیا ہے۔ ترکی کی بلند و بالا پہاڑیوں سے مقررہ وقت پر توپ چلا کر لوگوں کو افطاری و سحری کا پیغام دیا جاتا ہے،سعودی عرب میں بھی سحری کے وقت دیہی علاقوں میں توپ چلا کر لوگوں کو پیغام دیا جاتا ہے اور روس کے کچھ حصوں میں بھی اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔ سوڈان کی گلیوں میں منادی ہوتی ہے ۔منادی کے ساتھ ایک بچہ بھی موجود ہوتا ہے جسکے ہاتھ میں اس محلے میں رہنے والوں کے ناموں کی فہرست ہوتی ہے، جنہیں باقائدہ نام لے کر سحری کے وقت جگایا جاتاہے۔ مصر میں بھی ایک شخص گھروں کے باہر کھڑے ہوکر رہائشی کا نام لے کر پکارتا ہے تاکہ وہ سحری کے لیے جاگ جائے اور پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمد پڑھتا ہے۔روایت کے مطابق 969 عیسوی میں اہل مصر نے قاہرہ میں خلیفہ معز الدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا، جس کے بعد سے رمضان المبارک کے دوران فانوس جلانے کی روایت کا آغاز ہوا اور ماہ رمضان کے دوران مصر میں فانوس یا لالٹین روشن کرنا روایت کا حصہ بن گیا۔مصر میں رہائشی محلوں میں خیراتی ضیافتیں منعقد کی جاتی ہیں، جہاں ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالتا ہے۔شمالی افریقا میں عربی ڈیزائنوں کا غلبہ رہتا ہے۔خلیجی ممالک میں رنگ برنگی روشنیاں اور 8 نکاتی ستارے اور ہلال مختلف عمارتوں اور شاپنگ سینٹرز کی چھتوں سے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ اسلامی روایات سائنسی جدت کے باوجود کئی علاقوں میں جاری ہے ۔یہ بھی میراث ہے ،اسے نسل نو تک منتقل کرنا چاہیے ۔