ڈاکٹر نذیر احمد سالہا سال تک گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ زوالوجی کے صدر اور بعد ازاں پرنسپل رہے۔ ان کے ہزاروں (بلکہ لاکھوں) شاگرد پاکستان اور کئی دیگر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میرا یہ کالم نہ صرف ان کے شاگردوں کے لئے بلکہ دیگر حضرات کے لیے بھی نہایت دلچسپی کا موجب بنے گا۔ وُہ کوئی عام انسان یا اُستاد نہیں تھے۔ ان کی ذاتِ گرامی میں اتنی صفات جمع ہو گئی تھیںکہ وُہ قدرت کی فیاضی کا جیتا جاگتا نمونہ بن گئے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف دو ایسی شخصیات دیکھی ہیں جن کا ایک بھی مخالف یا نقاد میرے علم یا مشاہدے میں نہیں آیا۔ ایک تو جناب عبدالستار ایدھی ہیں ا ور دوسری شخصیت جناب ڈاکٹر سید نذیر احمد کی ہے۔ ہمارے معاشرے میں دوسروں کی ٹانگ کھینچنے ، غیبت حتّٰی کہ سازش ، بلا وجہ تنقید اور مذاق کی روش عام ہے۔ ایسے معاشرے میں ایسی شخصیت کا وجود جس کا نام سنتے ہی ہر چھوٹے بڑے کی گردن احترام سے جھک جائے، ایک معجزے سے کم نہیں ۔ جناب ڈاکٹر نذیر حمد ایسی ہی شخصیت تھے۔ صرف ایک ہستی کو ان سے گلہ تھا اور وُہ ان کی بیگم تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کا بیٹا سعید راجن 1954-55ء میں سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں میرا کلاس فیلو اور دوست تھا۔ اِسی تعلق سے ڈاکٹر صاحب کے گھر بھی میرا آنا جانا تھا۔ ایک دن بیگم صاحبہ گفتگو کے دوران کہنے لگیں:" ڈاکٹر صاحب مجھے پوری تنخواہ نہیں دیتے مشکل سے گزر بسر کرتی ہوں" ۔ یہ سن کر میں حیران ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کو کوئی ایسی لت نہ تھی کہ انھیں روپوں کی ضرورت ہوتی۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے کہا: " ڈاکٹر صاحب کئی لڑکوں کی فیس اپنی جیب سے دیتے ہیں۔ انہیں اپنے بیٹوں کی فکر کم اور دوسروں کی زیادہ ہوتی ہے۔ " (ڈاکٹر صاحب کے دو بیٹے اور ایک لے پالک بیٹی تھی) ۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحب پرنسپل تھے۔ چاہتے تو ان طلبا ء کی فیس بھی معاف کر سکتے تھے لیکن انھیں گورنمنٹ کے خزانے پر چند سو روپے کا بوجھ ڈالنا بھی گوارا نہیں تھا۔ اِس بات کی کالج میں کسی کو خبر نہ تھی۔ 1955ء میں جب میں جماعت نہم کا طالب علم تھا، ایک روز سکول میں ہماری اردو کی کلاس جاری تھی۔ مرزا ہادی علی بیگ پڑھا رہے تھے۔ پڑھاتے پڑھاتے وُۃ اچانک کرسی سے اُٹھے اور تیزی سے باہر برآمدے کی طرف گئے۔ ہم نے مڑ کر دیکھا۔ ایک صاحب نے لکھنوی انداز میں جھک کر مرزا صاحب کو سلام کیا۔ مرزا صاحب نے جو کہ خود بھی مشرقی تہذیب کا نمونہ تھے، ان سے پرجوش مصافحہ کیا اور پھر دونوں وہیں کھڑے باتیں کرنے لگے۔ سعید راجن نے ہمیں بتایا کہ یہ ملاقاتی ان کے والد سید نذیر احمد ہیں جو گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ زوالوجی کے صدر ہیں۔ اُس روز میں نے ڈاکٹر صاحب کو پہلی بار دیکھا تھا۔ وُہ پاجامہ اور شیر وانی میں ملبوس ، چھوٹے قد ، گہرے گندمی رنگ ، نہایت عامیانہ خدوخال اور شکل و صورت کے انسان تھے۔ ان کے سرپر اتنے بال تھے کہ ان سے ایک چھوٹا سا کمبل بن سکتا تھا۔ 1956ء میں سعید راجن اور میں نے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحب پرنسپل نہیںتھے( پروفیسر سراج الدین مرحوم پرنسپل تھے)۔ سعید راجن سے میری دوستی کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے ہاں میرا آنا جانا تھا۔ سعید راجن کی والدہ جنھیں میں خالہ جان کہتا تھا، ایک سادہ دل ، سادہ مزاج اور نیک دل خاتون تھیں۔ سعید اور مجھ میں کوئی فرق روا نہ رکھتی تھیں۔ ایک اور دلچسپ واقعہ گوش گزار کرتا چلوں۔ میٹرک میں سعید راجن کے نمبر کم تھے اور وُہ میرٹ لسٹ پر نہیں آرہا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ ڈیڈی کہتے ہیں میں داخلے کے لئے تمہاری سفارش نہیںکرو ں گا۔ تم اسلامیہ کالج میں داخلے کی درخواست دے دو۔ سعید یہ سن کر خاصاپریشان ہوا۔ پھر میرے مشورے پر وُہ پرنسپل سراج الدین سے ملا اور انھیں بتایا کہ ڈیڈی نے میرے داخلے کے سلسلے میں میری مدد سے صاف انکار کر دیا ہے جب کہ میری خواہش گورنمنٹ کالج میں داخل ہونے کی ہے۔ پرنسپل صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو کچھ بتائے بغیر سعید کو ٹیچرز سن ) teacher's son) کی سیٹ پر داخل کر لیا۔ داخلے کے بعد سعید نے بڑے فخر سے ڈاکٹر صاحب کو اپنے داخلے کی اطلاع دی تو ڈاکٹر صاحب نے خوشی کا اظہار کرنے کے بجائے پوچھا: " کیا تم نے میرا نام استعمال کیاہے؟" سعید نے جواب دیا، " ڈیڈی آپ نے تو میرے لئے کچھ نہیں کیا لیکن پرنسپل صاحب نے مجھے ٹیچرز سن کی سیٹ پر داخلہ دے دیا ہے"۔ اگلے روز ڈاکٹر صاحب کی ملاقات پرنسپل سے ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے ان سے کہا: "آپ نالائق لڑکوں کو داخلہ دے کر کالج کی کونسی خدمت کر رہے ہیں؟ " سراج الدین صاحب نے جواب دیا: اُسے ٹیچرز سن کی سیٹ پر داخلہ دے کر میں نے کسی ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اور مزید یہ کہ لائق باپ کا بیٹا اتنا نا لائق نہیں ہو سکتا کہ گورنمنٹ کالج میںداخل نہ ہو سکے" ۔ سعید راجن سے دوستی کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب مجھ پر بھی خاص شفقت فرماتے تھے۔ ان دنوں میں کرکٹ کھیلتا تھا۔ میں کالج کی کرکٹ ٹیم کا باقاعدہ رکن تو نہیں تھا البتہ کبھی کبھی شام کو نیٹ پریکٹس کے لئے آجاتا تھا ۔ وہاں بعض اوقات ڈاکٹرصاحب بھی آجاتے تھے اور نوجوانوں میں گھُل مل جاتے تھے۔ وُہ بالر تو نہیں تھے لیکن اچھے بیٹسمین تھے۔ ہمارے ساتھ علاوہ اور پلئیرز کے شفقت رانا ( معمر رانا کے والد اور سابق ٹیسٹ کرکٹر) مشتاق ہاشمی اور پرویز سجادبھی کھیلتے تھے۔ پرویز سجاد ٹیسٹ کرکٹر وقار احمد کے بھائی تھے(وقار صا حب کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے)۔وہ 1954ء میں انگلینڈ کو ا وول ٹیسٹ میں شکست دینے والی ٹیم کے رُکن تھے۔" پرویز سجاد سپنر تھے۔ بعد میں انہوں نے پاکستان کی طرف سے کئی ٹیسٹ کھیلے۔ جب ڈاکٹر صاحب بیٹنگ کرتے تو پرویز سجّاد (اور دوسرے بالرز بھی ) سیدھے اور آسان بال کرواتے ۔ ڈاکٹر صاحب نے بھانپ لیا کہ بالر اُن سے رعایت برت رہے ہیں۔ انہوں نے پرویز سجاد کو پیار سے سمجھایا، " بیٹا! یہ حرکت کر کے تم مجھ سے، اپنے آپ سے اور کرکٹ کی گیم سے زیادتی کر رہے ہو۔ اپنی بالنگ مت خراب کرو۔ میرے آئوٹ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ مجھے خوشی ہوگی کہ میں ایک اچھے بال پر آئوٹ ہوا ہوں۔" میں بھی پاس ہی کھڑا تھا ۔ میں نے کہا ، "نہیں ڈاکٹر صاحب یہ بات نہیں۔ آپ کو سامنے دیکھ کر پرویز نروس ہو جاتا ہے اور ٹھیک سے بالنگ نہیں کروا سکتا" ۔ ڈاکٹر صاحب بولے : " اگر یہ بات ہے تو حنیف محمد، امتیاز احمد ، منجریکر ، عمریگر ، منکنڈ اور ہٹن جیسے کرکٹرز کا سامنا کیسے کروگے؟ ۔" یہ سُن کر پرویز سجاد نے کہا ، " سر وُہ سب عظیم کرکٹرز ہیں لیکن ہماری نظر میں جو مقام آپ کا ہے، کسی اور کا نہیں ہو سکتا" ۔ بعد میں ہم پرویز سجاد کا مذاق اُڑاتے کہ تمہیں تو ڈاکٹر صاحب نے ٹیسٹ کرکٹر بنا دیا ہے۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کے منہ سے نکلی ہوئی بات نے حقیقت کا روپ دھارا اور پرویز سجاد نے ٹیسٹ کرکٹ میں بڑا نام پیدا کیا۔ (جاری ہے)