اسلام آباد، لاہور(خبر نگار،لیڈی رپورٹر، نامہ نگار خصوصی)عدالت عظمی ٰنے ہائیکورٹ کے ازخود نوٹس اختیار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر قیدیوں کی رہائی کے فیصلوں پر عمل درآمد روکدیا ہے ۔5 رکنی لارجر بینچ نے درخواست گزار راجہ ندیم احمد کی درخواست باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرکے کیس کے تمام فریقین ،چاروں صوبوں،آزادکشمیر،گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز،پراسیکیوٹر جنرل نیب،اینٹی نارکوٹکس فورس، ہوم سیکرٹریز،آئی جیز جیل خانہ جات ،سیکرٹری صحت ،چیف کمشنر اسلام آباد کو نوٹس جاری کرکے قرار دیا کہ قیدیوں کی رہائی پر ہائیکورٹس نے کوئی حکم جاری کیا ہے تو سپریم کورٹ کے فیصلے تک اس پر عمل درآمد نہ کیا جائے ۔ مقدمے میں وکیل شیخ ضمیر حسین کو عدالت کا معاون مقرر کرکے قرار دیا کہ عدالت کے فیصلے تک کسی ملزم کو کورونا کی بنیاد پر رہائی نہ دی جائے ۔سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 408 قیدیوں کی رہائی اوردیگر عدالتوں کے فیصلے معطل کردیئے ۔پیر کو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ دیکھنا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ نے کس اختیار کے تحت قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا، ہائیکورٹس ازخودنوٹس کا اختیار کیسے استعمال کر سکتی ہیں؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آفت میں لوگ اپنے اختیارات سے باہر ہو جائیں، یہ اختیارات کی جنگ ہے ،اختیار نہ ہو تو ٹک ٹک کرکے آرڈر کیسے ؟ اٹارنی جنرل نے درخواست کی مخالفت نہیں کی اور موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ اس معاملے کا جائزہ لے کر گائیڈ لائن دے ۔چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ ہمیں معاملے کی سنگینی اور خطرات کا ادراک ہے لیکن قانون کی حکمرانی بھی قائم کرنی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو کیسے رہا کیا جاسکتا ہے ،کوئی توازن ہونا چاہئے ہم جائزہ لے کر گائیڈ لائن فراہم کریں گے ۔ بھارتی سپریم کورٹ نے تو کمیشن بنا کر معاملہ اس پر چھوڑ دیا ،امریکی عدلیہ کا موقف ہے کسی کو رہا نہ کیا جائے ۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہااس انداز سے ضمانتیں دینا ضمانت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آفت میں لوگ اپنے اختیارات سے باہر ہو جائیں، ہائی کورٹ کے حکم سے کسی نے ایک ہفتے پہلے جرم کیا تو وہ بھی باہر آ جائیگا،ایسی صورت میں مدعی کے جذبات کیا ہوں گے ؟ جن کی دو تین ماہ کی سزائیں باقی رہتی ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔جسٹس قاضی محمد امین نے کہا ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا بلکہ پرسکون رہ کر فیصلہ کرنا ہے ۔عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اسباب جاننے کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کی درخواست مفاد عامہ کے تحت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت اتفاق واتحاد کی ضرورت ہے ، اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو کر یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے اوردرخواست خارج کر دی۔ سول سوسائٹی نے تفتان بارڈر سے زائرین کی آمد میں حکومتی نااہلی کی تحقیقات اوراسمیں زلفی بخاری کے کردار کی تحقیقات کی استدعا کی گئی تھی ۔3صفحات کے تحریری فیصلہ میں عدالت نے کہا کہ کورونا ایمر جنسی میں وفاقی و صوبائی حکومتیں شہریوں کے تحفظ کیلئے بھر پور کام کر رہی ہیں،یہ وقت نہیں کہ ریاست کی نیت پر شک کرکے تنازعات میں الجھایا جائے ، حکام کی توجہ کرونا کے حوالے سے اقدامات سے ہٹانا درست نہیں، آرٹیکل 199 کے تحت انکوائری کا حکم نہیں دے سکتے ، موجودہ حالات میں اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ ریاست پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا جائے ۔