اہلِ نظر اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ قوموں کو زوال کے پاتال سے نکالنے اور تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے میں تعلیم کی حیثیت نہایت بنیادی اور اساسی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہی وہ حیات خیز عنصر تھا جس سے ہم نے برسوں سے منہ موڑ رکھا ہے۔ اگر ہمارے اربابِ اختیار صرف اسی ایک عنصر کو یک در گیرد محکم درگیر کے اصول پر اپنا لیتے اور پاکستانی نسل کو ایک ہمہ گیر ، خدا مرکز ، حال آگاہ، مستقبل شناس ، تربیت مرتکز ، کردار ساز اور نصب العین آشنا نظام کی نعمت عطا کر دیتے تو آج پاکستانی قوم سرابوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کر ہلکان نہ ہوئی ہوتی۔ اقبال سمت آشنا اور پورے انسانی وجود کو منقلب اور متحول کر دینے والی حیات آفرین تعلیم کے خدوخال سے بخوبی آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ ایسی تعلیم ہی انسانی کردار میں خودی ، خودشناسی، روشن فکری دیانت، غیرت ، ایجاد طرازی اور تسخیر کائنات کی آرزو پیدا کرتی ہے۔ انگریزی استعمار کی آمد سے پہلے برعظیم کا تعلیمی نظام بڑی حد تک محکم اور جہت آشنا تھا اور ملی اقدار کی حفاظت اور ترویج کا شعور رکھتا تھا۔ فرنگی استعمار نے پہلا ہدف ہمارے تعلیمی نظام ہی کو بنایا ۔ نتیجۃً ہم من حیث القوم اپنے منفرد ملّی وجود کے شعور سے محروم ہو گئے۔ رفتہ رفتہ حمیت ، حوصلہ مندی اور بلند نگہی ہمارے قومی کردار سے غائب ہوتی گئی اور جلد ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب مسلمان غلام زادوں نے ’’برکاتِ انگلشیہ‘‘ کے راگ الاپنے شروع کر دیے۔ اقبال کی نظم ’’نصیحت‘‘ (ضرب کلیم) یاد آتی ہے جس میں ایک فرنگی لارڈاپنے فرزند کو نصیحت کرتا ہے کہ دیکھنا بھیڑ کے بچے کو شیر کے فضائلِ شجاعت اور تیزی و حوصلہ مندی سے ہرگز آگاہ نہ کرنا اور ہاں محکوموں کو تلوار سے زیر نہیں کرتے بلکہ ایک اور نہایت تیز دھار اور قیامت کی سی کاٹ رکھنے والی شے سے تسخیر کرتے ہیں جس کا نام تعلیم ہے: تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو/ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر/ تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب/سونے کا ہِمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر! اور ہم سونے سے واقعی مٹی کا ایک ڈھیر بن گئے۔ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے/ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔ اسی گہرے باطنی اور کرداری زوال کے نتیجے میں ہمارے اندر نفیِ خودی ، مردہ دلی، ذہنی غلامی ، غیر انحصاری ، احتساب و خود احتسابی سے بے توجہی، رزقِ حلال اور صدقِ مقال سے بے اعتنائی و محرومی اور حق و باطل میں عدم تمیز کے جیسے مفاسد پیدا ہو گئے اور آج ہم اس زمین کابوجھ ہیں : یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمیں کا/ زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے؟ بالِ جبریل کی ایک بے مثل نظم ’’پیرومرید‘‘ ہے ۔ نظم کیا ہے، قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے ایک مجرب اور تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔ اقبال ایک عقیدت مند مگر ذہین مرید کی طرح پیرِ رومی سے سوال کرتے ہیں اور ان سے حیات خیز اور معانی سے لبریزجواب پاتے ہیں۔ مثلاً اس سوال کے جواب میں کہ سینے کے اندر دل کی بیداری اور خارجی کائنات کی تسخیر کیسے ممکن ہے، رومی کا جواب کس قدر معنی خیز اور تحرک آفریں ہے۔ فرماتے ہیں: بندہ باش و بر زمیں رَو چوں سمند/ چوں جنازہ نَے کہ بر گردن بُرند(مالک کی اطاعت اختیار کر اور گھوڑے کی طرح زمین پر حرکت کر، جنازہ نہ بن جو بے بس ہوتا ہے اور جسے دوش و گردن پر اٹھا کر سپردِ خاک کر دیا جاتا ہے)۔ گویا دل کی بیداری اطاعتِ حق سے مشروط ہے اور تسخیرِ آب و گل حرکت و حرارت کی مرہونِ منت ہے ۔ اقبال نے سخت کوشی کے اسی مضمون کو بہ رنگ دگر یوں بیان کیا تھا: قسمتِ بادہ مگر حق ہے اُسی ملت کا /انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخابِ حیات۔ ’’پیر و مرید‘‘ میں چند اور سوال اور رومی کی طرف سے دیے گئے جوابات بھی بڑے قابلِ توجہ ہیں۔ مثلاً اقبال رومی سے سوال کرتے ہیں کہ امتیں کس بیماری کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔ رومی کا دو ٹوک جواب یہ ہے: ہر ہلاکِ امتِ پیشیں کہ بود/ زانکہ بر جندل گماں بُردند عود۔ مراد یہ ہے کہ جب قومیں حق اور باطل یا ادنیٰ اور اعلیٰ میں امتیاز کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہیںتو ہلاک ہو جاتی ہیں۔ لازم ہے کہ پتھر اور خوش بودار لکڑی (اگر) میں امتیاز کیا جائے۔ اس تمثیل کا آج کے ہمارے زوال آمادہ معاشرے پر صرف مادی حوالے ہی سے اطلاق کیجیے۔ کاروبارِ حیات میں ادنیٰ اعلیٰ کی جگہ لے چکے ہیں۔ ذہانت ، میرٹ ، بلند نگہی اور صداقت، کوڑے دان کی نذر ہیں اور ادنیٰ ، بے شعور ، نیم خواندہ ، گندم نما جو فروش چونکہ اپنے قبیلے یا علاقے کے لوگ ہیں لہٰذا بلند مدارج اور مناصب پر بڑی ڈھٹائی سے فائز کر دیے جاتے ہیں۔ اقرباپروری اور خویش نوازی کے اسی چلن اور پورے وطنِ عزیز کے رگ و پے میں اترے اسی زہر کا نتیجہ ہے کہ اعلیٰ ذہانت اور میرٹ کے حامل افراد ترکِ وطن پر مجبور کر دیے گئے ۔ کیا کوئی معاشرہ اس خوفناک ’’برین ڈرین‘‘ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کیا قوموں کی تعمیر و ترقی گھاس پھونس سے ممکن ہے اور کیا ماچس سے بجلی کا بلب روشن اور برقی پنکھا متحرک کیا جا سکتا ہے؟ ہم اس غلط فکری میں مبتلا ہیں کہ دوسرے ملکوں میں متوطن حضرات ملک کے لیے زرِ مبادلہ کماتے ہیں، ہمیں ایک لمحے کے لیے یہ خیال نہیں آتا کہ اگر ان تجربہ کار، ذہین لوگوں کو اپنے وطن میں ان کے میرٹ کے مطابق کھپایا جاتا تو یہی مٹی سونا اگلتی۔ اقبال نے کس قدر درست کہا تھا: تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا/ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔ اقبال ایک جگہ رومی سے پوچھتے ہیں کہ سوز و گداز اور علم و حکمت کی نعمتیں کیسے ملتی ہیں۔ رومی جواباً فرماتے ہیں: علم و حکمت زاید از نانِ حلال/ عشق و رقّت آید از نانِ حلال(علم اور حکمت رزقِ حلال سے ہاتھ آتے ہیں، نانِ حلال ہی سے سوز و گداز اور عشق کی نعمتیں ارزانی ہوتی ہیں) ۔ نانِ حلال (اور صدق مقال) کی نعمت اب ہمارے معاشرے کا ایک بھولا ہوا سبق ہے لہٰذا یہاں دردمندی اور گداز کی تلاش سعیِ لا حاصل ہے۔ اب بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا چلن خود غرضی اور قساوتِ قلبی سے تسکین پاتا ہے۔ افراد حال مست ہیں اور اسی میں خوش ہیں۔ انفرادی و اجتماعی ضمیر کی یہ تاریکی اور قلب کی یہ قساوت ایک مدت کی غلط روی اور غلط اندیشی کا نتیجہ ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کے کئی اسباب ہیں۔ مثلاً صدیوں پر حاوی بادشاہت ، زوال آمادہ پیری مریدی اور تنگ نظر ملائیت ۔ چنانچہ فرماتے ہیں: باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری/ اے کشتۂ سلطانی و ملاّئی و پیری۔ اِس سلطانی نے زیادہ تر تملق و خوشامد ، ملاّئی نے تنگ نظری اور پیری نے تو ہم پرستی اور رسمیت جیسے مفاسد کو مفاسد کو جنم دیا (الا ما شاء اللہ) اقبال کے ہاں امتوں کے امراض و مفاسد ہی کا ذکر نہیں، ان کا علاج بھی معرضِ بیان میں آیا ہے۔ تفصیل کا محل نہیں، صرف چند شعر پیش ہیں: صورت شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم/کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب۔ ؎ دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ/ کہ یہی ہے اُمتوں کے مرضِ کہن کا چارہ۔ ؎ قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی/ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے ؟ خدائی۔ محراب گل کے بھیس میں اقبال نے ایک مدت پہلے ہمیں استعمار کی غلامی کے بجائے پیرہنِ چاک چاک کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا تھا: ؎ اے مرے فقر غیور کیا ہے ترا فیصلہ /خلعت ِ انگیریز یا پیرہنِ چاک چاک؟ یعنی آج کے تناظر میں آئی ایم ایف کی غلامی ، ورلڈ بینک کی بھیک اور عرب و امارات کی دریوزہ گری یا غیرتِ قومی۔ فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟ (تمّت)