پٹرول‘ ڈیزل‘ گیس‘ مٹی کے تیل کی قیمتوں پر قیمتیں بڑھا کر غریب کے لئے روٹی سستا کرنے کا اعلان کچھ اس قسم کی متضاد صورت حال سے مطابقت رکھتا ہے: شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں اور کمال تو یہ ہوا ایک روز پہلے اخبارات کی ہیڈ لائن تھی کہ وزیر اعظم نے روٹی کی پرانی قیمتیں بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ خوشی سے مر نہ جانے کی کیفیت تو یہ بھی کچھ ایسی نہیں تھی کہ غریب صرف روٹی ہی تو نہیں کھاتا۔ روٹی کے ساتھ اس نے کوئی دال ساگ بھی کھانا ہوتا ہے اور حضور یہ دال سبزی کی قیمتیں بھی اب اس کی قوت خرید پر بوجھ ہیں۔ پھر اس دال سبزی کو پکانے کے ئے چولہا جلانا پڑتا ہے اس کے لئے بھی ایندھن درکار ہوتا ہے۔ گیس‘ بجلی‘ مٹی کا تیل جو مہنگے سے مہنگا ہوتا جا رہا ہے ایک ہانڈی صرف بازار دال یا ٹینڈے خرید کر ہی تیار نہیں ہو جاتی اس میں گھی، نمک مرچ ،ہلدی کم سے کم بنیادی اجزا کی صورت میںضرور ڈالے جاتے ہیں۔ پیاز اور لہسن کا خرچہ اس سے الگ ہے اب آپ ہی بتائیں کہ صرف روٹی سستی کر کے آپ نے غریبوں پر کون سا احسان کیا ہے۔ کبھی کسی دیہاڑی دار غریب محنت کش بی بی سے بات کریں تو وہ آپ کو بتائے گی کہ ایک دن ’’ہانڈی بنانا‘‘ کے پورے دن کی محنت کا حاصل ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ ہانڈی ناگزیر وجوہات کی بنا پر نہیں بن پاتی۔ سو اس روز کونڈی میں مرچ اور پیاز کی چٹنی بنائی جاتی ہے یا پھر چٹنی کے اجزائے ترکیبی بھی اس روز کے ’’بجٹ ‘‘ کے حساب سے طے کر لئے جاتے ہیں۔ ٹماٹرعموماً غریب کے لئے ایک مہنگی سبزی شمار ہوتا ہے۔ لیکن اگر جیب اجازت دے تو ٹماٹر بھی اس چٹنی میں ڈال کر کچھ عیاشی کا سامان کر لیا جاتاہے۔ سو ایک سوکھی روٹی کو حلق سے اتارنے کے لئے کم سے کم چٹنی کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ سو وہ مشیران کرام جنہوں نے صرف روٹی سستی کرنے کا مشورہ حکومت کو دیا۔ انہیں چاہیے کہ خدارا زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں اور غریب کے لئے روٹی سستی کرتے ہوئے اس کی ہانڈی اور چٹنی کے بارے میں ہی ہمدردانہ غور فرما دیں۔ ویسے صاحب اب روٹی بھی کہاں سستی رہی۔ اگلے روز ہی پٹرول‘ ڈیزل‘ مٹی کا تیل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافے کی دھماکہ خیز خبروں نے آس فیاضی پر پانی پھیر دیا جو حکومت نے روٹی کی پرانی قیمتوں کو بحال کر کے کی۔ میں حیران ہوں ایسے متضاد فیصلے کرنے والے کون ہیں۔ کیا یہ بھی ہم ان کو بتائیں گے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے تمام ضروریات زندگی کی قیمتیں خود بخود بڑھ جاتی ہیں اشیا کی منڈی سے مارکیٹوں تک ترسیل مہنگی ہو گی تو ان اشیاء کی قیمتوں میں خود بخود اضافہ ہو جائے گا۔ ادھر پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں ادھر ٹرانسپورٹرز اپنے اپنے کرائے بڑھا دیتے یہں۔ 92نیوز اخبار کے رپورٹر اشرف مجید کی خبر کا حوالہ دیتی ہوں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے فوری بعد انٹرسٹی اے سی ٹرانسپورٹروں اور گڈز ٹرانسپورٹروں نے کرایوں میں 8فیصد تک اضافہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تنخواہیں وہی‘ آمدنی وہی اور مہنگائی روز بروز اپنے دانت تیز کرتی غریب شہر پر وار کرتی ہے آخر عوام کہاں جائیں۔ جب زندگی سے جڑی ہر شے مہنگی ہے تو پھر صرف روٹی سستی کرنا مذاق کے علاوہ اور کیا ہے۔ مہنگائی کے اس ہنگام میں سکولوں نے بھی اپنی فیسیں بڑھا دی ہیں اور پرائیویٹ سکولوں کی ایک ایسی کیٹگری ہے جو اپنی مرضی سے فیسوں میں ہوشربا اضافہ کرتے ہیں لیکن ان پر ملک کے کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ والدین بھلے کورٹ کچہریوں سے آرڈر لے کر آئیں ،یہ سکول کسی طور فیس کم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جیسے روٹی کے بھی لالے پڑے ہوتے ہیں لیکن ایک طبقہ جیسے ہم متوسط یا مڈل کلاس کہتے ہیں‘ اب مہنگائی کا یہ سونامی ان کی زندگیوں کو بھی اجیرن کر رہا ہے۔ آج صبح فیس بک کھولی تو ایک محترم خاتون کی پوسٹ میرے سامنے تھی۔ وہ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور ایک بڑے علمی ادبی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ تحریک انصاف کی کٹر سپورٹر ہیں۔ مشکل دنوں میں بھی ان کی پوسٹوں میں تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت ہوتی تھی لیکن آج ان کی پوسٹ بہت مایوسی کے عالم میں لکھی ہوئی تھی اور اسی مہنگائی کا رونا رویا ہوا تھا۔ کپتان اور اس کی حکومت کے فیصلوں پر اور اپنی امیدیں ٹوٹنے پر بہت مایوسی کا اظہار کیا گیا تھا۔ سچی بات ہے میرے دل کو تکلیف ہوئی۔ عمران خان اس قوم کا ہیرو رہا ہے۔ اس قوم نے اس سے امیدیں باندھی تھیں لیکن ان امیدوں کے محلات کا یوں چکنا چور ہونا اور اس کے چاہنے والوں کا مایوس ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ باقی جو کچھ سیاست کے منظر نامے پر ہو رہاہے غریب کو اس کی کیا پرواہ کہ سینٹ کے اس معرکے میں کون کس کو چت کرتا ہے۔ سنجرانی رہے گا یا پھر جائے گا۔ ملک کے ستر فیصد لوگوںکو سیاست کی ان قلابازیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یقین جانیں انہیں تو اس سے بھی غرض نہیں کہ قومی لٹیروں کا حساب ہو رہا ہے کون جیل میں ہے کون نیب کی پیشیاں بھگت رہا ہے۔ کس کے اکائونٹس منجمد کر دیے گئے‘ کس کے اثاثے ضبط ہوئے سیاسی انتقام کیا ہے اور بلا تفریق احتساب کی منزل کتنی دور ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ انہیں اگر کچھ غرض ہے تو یہ کہ مہینے کی پہلی کھسکتے ہوئے مہینے کے وسط تک چلی گئی ہے۔ تب تک اخراجات کیسے پورے کرنے ہیں۔ ضرورتوں کے جسم پر آمدنی کی چادر چھوٹی پڑتی جاتی ہے۔ مکان کا کرایہ بڑھ گیا ،بچوں کی فیس بڑھ گئیں۔ ضرورت کی ہر شے تو پہلے ہی مہنگی تھی اب عید قربان کا تحفہ حکومت نے مزید مہنگائی کی صورت میں دے دیا ہے۔دوائیں 200فیصد تک مہنگی ہو چکی۔ستر فیصد عوام کے لئے زندگی پہلے بھی پھولوں کی سیج نہ تھی۔ ضرورتوں‘ خواہشوں ‘ خوابوں کم وسائل کے درمیان گھن چکر بنی ہوئی زندگی تھی۔ آسودگی اور آسانی کو ترستی ہوئی زندگی تھی۔ لیکن سچی بات ہے ایسی مضحکہ خیزی ان کی زندگیوں کے ساتھ پہلے نہیں ہوتی تھی کہ ایک دن روٹی سستی کرنے کا اعلان کے اگلے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر زندگی سے جڑی ہر شے مہنگی کر دی جائے۔!سستی روٹی کا مذاق بھی نئے پاکستان ہی کا تحفہ ہے!