کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے اثرات انسانوںاور ہرشعبے پر خوفناک انداز میں مرتب ہورہے ہیں ۔کورونا وائرس نے دیہاڑی دار طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔ مختلف صنعتوں نے گھر بیٹھے ورکروں کو تنخواہ کی ادائیگی سے معذوری کا اظہار کیا تو وفاقی حکومت نے عوام کو درپیش مالی مشکلات کومدنظر رکھتے ہوئے24مارچ کو 1200ارب روپے کے کورونا ریلیف پیکج کا اعلان کیا ۔ ریلیف پیکج میں وزرات صنعت وپیداوار نے بے روزگار اور دووقت کی روٹی کو ترستے مزدوروں کیلئے200ارب روپے منظور کروائے۔ پیکج کے تحت بے روزگار ی سے دوچار افراد کو 12ہزار روپے کی امداد ملنا تھی۔ گرینڈ ریلیف پیکج کا توحکومت نے 24مارچ کو اعلان کردیا تھا مگر خدشہ وہی تھا کہ سرکاری مشینری فوری طورپر مستحق افراد تک شفاف انداز میں رقم منتقل نہیں کر پائے گی ۔وزیراعظم عمران خان مسلسل پروگرام کی نگرانی اور عوام کو دلاسہ دے رہے تھے ‘جس کی بدولت امید بندھی کہ 200ارب روپے کے پیکج سے بہت جلد غریبوں کے بجھے چولہے کچھ دنوں کیلئے جل اٹھیں گے ۔ حکومت آنے والے دنوں میں لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی بھی کردے گی جس سے معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا۔محنت کش افرادپھر اپنی مد د آپ کے تحت بچوں کا پیٹ پالنے میں جُت جائیں گے۔ مگر نئے پاکستان میں وہی ہوا جس کا ڈرتھا۔وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ وتخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کابینہ کے سامنے انکشاف کیا ہے کہ احساس ایمرجنسی ریلیف پیکج کے تحت آئندہ چند روز تک 4کروڑ 80لاکھ افراد کی ایس ایم ایس کے ذریعے موصولی ہونیوالی درخواستیں مسترد کردی جائیں گی کیونکہ وزارت صنعت وپیداوار نے مزدوروں کیلئے جو 200ارب روپے کا پیکج منظور کروایا تھا ‘اس پیکج کے تحت رقوم کی تقسیم کیلئے اہلیت کا طریقہ احسا س پروگرام کی شرائط پر تیار کیا گیا‘ـ وزارت صنعت وپیداوار کی یہ حکمت عملی غلط ہے۔ وزارت صنعت وپیداوار کوٹارگٹڈمزدوروں کو ادائیگی کیلئے احساس پروگرام سے ہٹ کر اہلیت اور رقوم کی منتقلی کا طریقہ کا روضع کرنا چاہیے تھا۔ وزارت صنعت وپیداوار کے اس اقدام کے باعث کروڑوں افراد ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی درخواست بھیجنے کے بعد مالی امداد کے منتظر ہیں۔جیسے ہی ان افراد کو درخواست مسترد ہونے کا پیغام ملے گاتو اس اقدام کے نتیجے میں حکومت نے احساس پروگرام کے ذریعے سے جو اب تک نیک نامی اورشہرت کمائی ہے ‘سب برباد ہو جائے گا۔ وزارت صنعت وپیداوار فوری طور پر مزدوروں کو مالی امداد پہنچانے کیلئے احساس پروگرام سے ہٹ کر مختلف طریقہ کار طے کرے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے اس انکشاف سے کابینہ اجلاس میں ہرطرف پن ڈراپ سائلنس پیدا ہوگئی کہ ایک جانب حکومت احساس پروگرام کے تحت اربوں روپے کی مالی امداد پہنچا رہی ہے تو دوسری جانب غلط طریقہ کارکی وجہ سے کروڑوں افراد کی امیدوںکے ساتھ ساتھ حکومت نے اس پروگرام کے ذریعے مقبولیت حاصل کرنے کاجوپلان بنایا تھا‘اس پر پانی پھرنے والا ہے۔ کابینہ میںموجود حکومتی مقبولیت گرنے کا درد رکھنے والے ایک ذہین ممبر نے فوری مشورہ دیا کہ گھبرانے کی کیاضرورت ہے۔ اب اس مشکل صورتحال سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ جن 4کروڑ 80لاکھ افرادکو درخواستیں مسترد ہونے کا پیغام بھیجنا ہے انہیں شوگر کوٹڈ ایس ایم ایس بھیجنا چاہئے۔ درخواست مسترد ہونے کا واضح ایس ایم ایس مالی امداد کے منتظر افراد کیلئے قیامت خیز ثابت ہوگا۔ ایسے پیغام سے لوگوں میں مایوسی پھیلے گی۔ لہٰذاانتہائی احتیاط کیساتھ ایس ایم ایس تیار کیا جائے جس میں پہلے اب تک مالی امداد حاصل کرنے والوں کی تعداد مذکورہ افراد کو بتائی جائے۔ مذکورہ افراد کو بتایا جائے کہ آپ تسلی رکھیں ‘حکومت مستحق افراد کی مالی امداد جاری رکھے گی۔ایسے افراد جو پہلے مرحلے میں مالی امداد حاصل نہیں کرسکے ‘حکومت جلد ان تک بھی مالی امداد پہنچائے گی۔ اسی دوران اسلام آبادمیں واقع ایک کمپنی میں ملازمت کرنے والے افراد جو ماہانہ 16ہزار روپے تنخواہ وصول کررہے تھے‘کمپنی کا کام ٹھپ ہوگیا اور مزدور گھر بیٹھ گئے۔ حکومت نے مالی امداد کا پروگرام شروع کیاتو کمپنی سے وابستہ 40مزدوروں نے ایس ایم ایس کیا جو مالی امداد حاصل کرنے کے مستحق تھے مگر کوئی بھی امداد حاصل کرنے کا تصدیقی مسیج وصول نہ کرسکا۔حکومتی حکمت عملی پڑھتے ہوئے نہ جانے کیوں ملتان کے 86سالہ اخبار فروش چاچا محمد رمضان کی ویڈیو ذہن میں آگئی۔ اس ویڈیو نے کچھ عرصے قبل تک سوشل میڈیا پر دھوم مچائے رکھی ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ضلع ڈیرہ غازیخان کی تحصیل تونسہ شریف کا رہائشی چاچا محمد رمضان کئی برس سے ملتان میں سائیکل پراخبارفروخت کرکے روزی کمارہاتھا۔محمد رمضان اپنی ذہانت‘ محنت‘مطالعے اورحافظے کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا تھا۔ دونوجوانوں نے 86سالہ بوڑھے اخبار فروش سے چند سوالات پوچھے ۔چاچا محمد رمضان کے ذہانت اورہمت سے بھرپور جوابات نے نوجوانوں کو لاجواب کردیا۔ چاچا رمضان کا آخری فقرہ تھاکہ ’مانگتے سے کیا مانگنا…مانگوں گا اس سے جو سب کو دینے والا ہیـ‘۔ چاچارمضان ملتان کی شاہراہوں پر اخبار بیچتے بیچتے 17اپریل کو انصاف سے محروم ہی دنیا سے کوچ کرگیا ۔ دنیا کے کسی اور ملک میں چاچا رمضان جیسا ذہین فطین 86سالہ بوڑھا یوں رخصت ہوگا‘کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ چلیں مان لیا کہ کورونا وائرس کی تبارہ کاریوں کے دوران حکومت کی مقبولیت کسی صورت کم نہیں ہونی چاہئے مگر ابھی تو شاہراؤں پر آویزاں عالمی یوم مزدور کے بینرز بھی نہیں اُترے۔ایسے میںان دیہاڑی داروں کا کیا ہوگا جو حکومتی امداد ملنے پر ننھے بچوں کوچھوٹی موٹی فرمائیشیں پوری کرنے کا’لارا‘ لگائے بیٹھے ہیں‘جنہیں اپناپیٹ کاٹنے کے باوجود بچوں کے دودھ اور روٹی کے’ لالے‘ پڑے ہوئے ہیں۔ان کی بے چارگی‘ـمحرومیوں اور سسکتے احساس کا مداوا کوئی’شوگرکوٹیڈ‘ ایس ایم ایس کر پائے گا‘ـ ریاست مدینہ کے کسی دعوے دار کے پاس اس کا جواب ہے؟ یا پھر وہی ہوگا جس کی منظر کشی شبیر نازش نے کی ہے: دیکھے ضعیف کاندھوں پہ محنت کے جب نشاں بچوں نے کچھ بھی باپ سے مانگا نہ پھر کبھی !