پاکستان میں تحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے جو پورے ملک کے ہر صوبے‘ہر ضلع ‘تحصیل اور حلقہ نیابت میں اپنا وجود رکھتی ہے۔انتخاب میں جیت جائے یا ناکام رہے مگر اس کی قابل ذکر موجودگی سے انکار نہیں۔ مگر یہ موجودگی تحریک انصاف سے زیادہ عمران خان کی ذاتی مقبولیت یا اثر و نفوذ کی وجہ سے ہے‘ابھی تک عمران خاں کی طرف سے اس پارٹی کو ادارہ بنانے اور اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی گئی ہے۔اگر عمران خاں کا سیاست سے جی بھر جائے یا آئے دن کی سازشوں سے بے زار ہو کر وہ کسی اور راہ پر چل نکلے یا خدانخواستہ کوئی حادثہ درپیش ہو تب تحریک انصاف سوکھے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔تحریک انصاف میں اس کا کوئی جانشین ہے نہ متبادل۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے تحریک کو اپنا ذاتی یا خاندانی اثاثہ نہیں بنایا‘اس نے سیاست میں راہ پا جانے والی بعض بڑی خرابیوں بلکہ تباہ کاریوں کے تدارک کے لئے یہ راہ اختیار کی اور اپنی جان کو مشکلات میں ڈالا‘بڑی جدوجہد اور مشقت کے بعد وہ برسر اقتدار ہے ، ان خرابیوں کے تدارک اور ملک کی شان بڑھانے کے لئے کوشاں مگر یہ اعلیٰ مقاصد ایک فرد کی زندگی تک نہیں ہیں۔یہ ایک مستقل فریضہ ہے جو نسل در نسل صدیوں‘قرنوں جاری رہنا ہے‘اس حساب سے تحریک انصاف کو استوار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ عمران خان کے لئے وزیر بنے رہنے سے بھی یہ کہیں زیادہ اہم ہے کہ وہ تحریک انصاف کو منظم کرنے پر توجہ دے۔عمران خاں اپنی نگرانی میںکسی دوسرے کو وزیر اعظم بنا کر بھی حکومت کو کامیابی سے چلا سکتا ہے،جس طرح اس نے گزشتہ دور میں خیبر پختونخواحکومت کو چلایا اور اس کی رہنمائی کی،جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اب وہی صوبہ پہلے کی طرح کارکردگی برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہے‘اس میں کوئی شک نہیںکہ تحریک انصاف کا حلقہ اثر وسعت اختیار کر رہا ہے اور اسے مزید کامیابیاں ملنے کا امکان ہے، یہ بھی ممکن ہے آئندہ انتخابات میں وہ دو تہائی اکثریت لینے میں کامیاب رہے ۔مگر اس کا سبب عمران خاں یا تحریک انصاف کی مقبولیت سے زیادہ وہ اقتدار ہے جس کے مل جانے سے علاقائی طالع آزما‘حکمرانوںکے گرد جمع ہو جایا کرتے ہیں۔ فوج کی مدد تعاون بلکہ کوشش سے اقتدار تک پہنچ جانے والا نواز شریف‘جس کی شخصیت میں کشش تھی‘زبان میں اثر نہ قوت عمل۔ وہ بھی 1996ء میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد بھی اپنے اقتدار کو قائم نہیں رکھ سکا۔پاکستان کو پرکشش شخصیات کے ساتھ منظم‘مربوط سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے ،جو پورے ملک کا احاطہ کئے ہواور ہر شعبہ زندگی میں مناسب اور متناسب نمائندگی کے ساتھ۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کی ’سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی‘‘ میں ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ ایک وقت وہ آئیگا جب پی ٹی آئی عمران خاں کے بغیر برسر اقتدار ہو گی، میں اقتدار کے بغیر اسکا حصہ ہوں گا۔ یہ اسی طرح ایک ادارہ بنی رہیگی، جس طرح شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی میری سربراہی کے بغیر کامیابی سے اپنے فرائض انجام دے رہے۔ یورپ اور امریکہ کی بڑی سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی جو صدیوں اپنا کردار ادا کرے۔ بہرحال تحریک انصاف اقتدار میں ہے‘ پاکستان کے مرکز کے علاوہ بڑے حصے پر اس کی حکومت ہے یہ امکان نظر آتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بقیہ صوبوں میں بھی اس کی حکومت ہو اگر یہ کامیابی مل گئی، جس کا امکان واضح ہے تو اس کی وجہ عمران خاں کی شخصیت‘بیرون ملک ملنے والی کامیابیاں اور آئندہ برسوںمیں اقتدار اسی کے پاس رہنے کا تاثر تو ہے ہی لیکن اس کی متوقع کامیابی کی بڑی وجہ دوسری سیاسی جماعتوں کی کمزوری اور قیادتوں کی نااہلی کا حصہ زیادہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی پسپائی سے پیدا ہونے والے خلا کو عمران خاں اور اس کی تحریک انصاف نے آگے بڑھ کر پر کر دیا ہے مسلم لیگ نواز شریف کی شکست اور نا اہلی(تاحیات) سے جو خلا پیدا ہوا‘اسے پورا کرنے کے لئے کوئی دوسرا عمران موجود نہیں تھا‘چنانچہ مسلم لیگ ابھی تک نواز شریف‘اس کی نااہل(سزا یافتہ) بیٹی اور مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے بھائی کے ساتھ گھسیٹ رہی ہے۔پیپلز پارٹی کی پنجاب قیادت نے زرداری کے سامنے دم نہیں مارا، تو پارٹی کی حالت اور مستقبل سب کے سامنے ہے‘بالکل اسی طرح کے شاید اس سے بھی زیادہ برا انجام مسلم لیگ نواز کا منتظر ہے۔شاہد خاقان عباسی کے ہاتھ ایک موقع آیا تھا لیکن انہوں نے اسے ضائع کرنے میں دیر نہیں لگائی‘اب مسلم لیگ کو دہری مشکل کا سامناہے‘ایک طرف پارٹی میں وراثت کا جھگڑا چل رہا ہے اور دوسری طرف دونوں وارداتوں کو عدالتوں کا سامنا ہے اور قید و بند کے خطرے کے ساتھ سیاسی عہدے کیلئے نااہل ہونے کا امکان بھی‘اس صورتحال نے اس جماعت کی کارکردگی کو بالکل مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ نواز جو 1996ء کے انتخاب میں دو تہائی اکثریت کیساتھ مرکز اور چاروں صوبوں میں اقتدار کی بلا شرکت غیرے مالک و مختار تھی، آج پنجاب میں جی ٹی روڈ کے چند اضلاع تک سمٹ آئی ہے‘پھر بھی مرکز اور پنجاب میں نہ صرف پارلیمانی اپوزیشن کی قیادت کر رہی ہے بلکہ قابل ذکر موجودگی بھی رکھتی ہے۔اس جماعت نے اپنے اقتدار کے ادوار میں ذرائع ابلاغ کے کارکنوں اور مالکوں پر جو نوازشات کی تھیں‘اسکے صلے میں وہ ابلاغی ذرائع ان کے نحیف و نزار ہونے کے باوجود توانا دکھاتے رہنے میں مصروف ہیں ۔ وراثت کے جھگڑے میں شہباز شریف کا پلہ بھاری ہے اس لئے کہ وہ اس وقت اپنی جماعت کے سربراہ ‘پارلیمانی لیڈر‘لیڈر آف اپوزیشن بھی ہیں اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز پنجاب میں بلا شرکت غیرے مالک و مختار ہیں۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ مختلف انتخابی حلقوں میں متحرک قیادت نواز شریف کی سیاست میں نااہلی اور فوج کے خلاف اس کی ہرزہ سرائی کے متوقع نتائج کا ادراک رکھتی ہے۔اس وجہ سے بھی شہباز شریف کا پلڑا بھاری ہے،آخری اور سب سے اہم وجہ انتخابات کے ہنگام امیدواروں کے پارٹی ٹکٹ پر پارٹی کے صدر دستخط کریں گے‘مرکز میں وہ دستخط شہباز شریف کے ہونگے اور پنجاب میں ان کے فرزند حمزہ شہباز دستخط کیا کریں گے‘اس کے علاوہ بھی اگر آپ اس پارٹی کے اندر جھانک کر دیکھیں تو مریم نواز کی لابی میں موجود پارٹی رہنمائوں میں ماسوائے شاہد خاقان عباسی‘کے کوئی دوسرا نہیں جو براہ راست انتخابات میں امیدوار بن سکے اور شاہد خاقان کی حمایت بھی سیاسی وجوہات سے زیادہ ذاتی وجہ سے ہے۔ پارٹی کے اندر اب شہباز شریف کو برتری حاصل ہے اور رہے گی بشرطیکہ وہ اپنے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو دو برس تک ٹالتے رہنے میں کامیاب ہو سکیں۔یہ ساری ’’اگر‘‘ مگر‘ساتھ رہیں تو شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ تحریک انصاف کے مقابلے میں اتر سکے گی مگر یہ پھر بھی مشکل ہے کہ وہ 2018ء میں ملنے والی تعداد کے برابر کامیابی حاصل کر سکیں مگر ان کا وجود برقرار رکھنے کے لئے یہ کافی ہو گا۔ سیاسی خلا جو واقع ہو چکا ہے، اس کو پُر کرنے کے لئے فی الوقت کوئی سیاسی جماعت موجود ہے نہ کوئی پرکشش شخصیت مستقبل قریب میں ظاہر ہوتی نظر آتی ہے۔اگر شہباز شریف عدالتوں کو جُل دینے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ’’چوہدری پرویز الٰہی‘‘ کے ساتھ اتحاد کریں گے اور ایک متحدہ مسلم لیگ چوہدری برادران کی وساطت سے اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کی کوشش کرے گی کم از کم غیر جانبداری کی حد تک۔