اک کرب ہے آنکھوں میں اک درد ہے سینے میں کیا رمز ہے مرنے میں‘کیا راز ہے جینے میں کیا لیں گے تمہیں پا کر‘ساحل کی طرف جا کر طوفان اٹھایا ہے ہم نے تو سفینے میں کاندھوں پہ سرکی گرانی ہے کہ اس میں سوچوں کا بوجھ ہے سوسو فکراں دے پرچھاویں۔ سو سو غم جدائی دے۔ آج تو دل بھی بوجھل ہے کہ سل بنا ہوا ہے کس کو دکھائیں اپنا کلیجہ کٹا ہوا یہ کوئی رسمی اظہار غم نہیں بلکہ وہی سچائی غالب والی کہ اس نابغہ نے تعزیتی خط میں لکھا کہ کیونکر کہوں گا صبر کرو جس کا کلیجہ کٹ جائے وہ کیونکر صبر کرے گا۔ اسامہ ستی کے والدین کے گھائو پر کون سا مرہم رکھا جائے۔ عمران خان صاحب بار بار فرماتے ہیں کہ امن و امان پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا یہ دعویٰ بالکل بے معنی اور لایعنی لگنے لگا ہے۔ ساہیوال کی دہشت گردی ہوئی تو اینٹی ٹیررسٹ سکاڈ کے ہاتھوں خان صاحب کے وعدے کے باوجود اور وزراء قسموں سے بھری ہوئی تقاریر کے باوجود واقعہ پر مصلحت کی خاک ڈال دی گئی۔ معصوم یتیم بچے مجسم غم بن کر رہ گئے۔ اب کے تو اندھیر نگری کی انتہا ہی ہو گئی، جیسے کہ ہم مقتل میں اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ سراج الحق نے درست کہا ہے کہ اسامہ ستی شہید کا قتل بین پولیس گردی ہے۔ وہ گولیاں جو دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہونی چاہئیں وہ ہمارے بچوں کے سینوں میں اتاری جا رہی ہیں۔ انہوں نے اسامہ ستی کے والد کو یقین دلایا کہ وہ قاتلوں کو انجام تک پہنچانے میں ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسامہ کے والد کے لئے سرکاری سطح پر دعائے مغفرت کی گئی مگر جناب یہ حقیقت میں ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ اس میں پولیس کی دہشت گردی سارے ثبوتوں کے ساتھ سامنے آ چکی ہے کہ پانچ پولیس والوں نے اسامہ کی کھڑی گاڑی میں چاروں جانب سے گولیاں ماریں اور پھر اس کے مرنے کا انتظار کرتے رہے۔ ریسکیو کی گاڑی کو بھی مس گائیڈ کیا گیا۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ اوپر تک اس سانحہ پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی گئی، پتہ نہیں یہ درندے اور سفاک قاتل ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچتے کہ ایک معصوم پھول جیسے نوجوان کو گولیوں سے بھون دیں گے تو والدین جیتے جی ہی مر جائیں گے: ظلم اور رنج رایگانی ہے یہ مرے عہد کی کہانی ہے کون کاٹے پہاڑ رانوں کے کس کی آنکھوں میں اتنا پانی ہے ایسا بے برکت اور ابتر دور آیا ہے کہ کسی کو کسی کا کوئی خوف نہیں، جب اللہ ہی دل سے نکل گیا تو باقی کیا رہ گیا۔ طاقت ‘دولت اور اختیار ‘ذمہ داری ‘ انسانیت اور فرض کہیں نہیں، ضد خودسری اور انتقام۔ معلوم نہیں ہم کس دور ابتلا میں مبتلا ہیں، حالات دگرگوں ہوتے ہوئے اور آنے والے دنوں میں بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ خان صاحب پہلے کہتے تھے گھبرانا نہیں، پھر خود بھی گھبرا گئے اور اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کرنے لگے ،تشویش کا بھی کہ رشوت اور بدعنوانی کی جڑیں گہری ہو چکیں۔ ظاہر ہے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ اب وہ اپنے وزراء سے مخاطب ہوئے ہیں کہ کارکردگی دکھائیں اور غفلت کی گنجائش نہیں، خان صاحب کو کیا معلوم کہ وہ اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں اڑھائی سال گزر چکے ان کے پاس وقت کم ہے کہ جانتے ہیں عالم دوبارہ نیست۔ جو کمانا ہے کما لو۔ دوسرا یہ کہ اگلے الیکشن کے لئے انہیں نئے آشیانے ڈھونڈنے ہیں۔ آدھا وقت گزر چکا آدھا باقی ہے: عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں روز ایک نیا ایشو سامنے آ جاتا ہے اور کچھ دن دونوں طرف سے فائرنگ جاری رہتی ہے۔ ایک مذاق ہی تو بنا ہوا ہے بھوکے بٹیروں کا تو صرف محاورہ ہی ہے۔رجے ہوئے یعنی بھرے پیٹ والے بٹیرے اڑ رہے ہیں اور بھوکے تماشبین ان کی لڑائی دیکھ رہے ہیں۔ شہزاد اکبر اور اسی نوع کے مشیر وغیرہ کب سے زور مار رہے ہیں۔ مگر حرام ہے کہ کوئی ایک بھی پریس کانفرنس یا کوئی موو نتیجہ خیز ہوئی ہو۔ اب براڈ شیٹ کا ایک نیا معاملہ سامنے آ گیا ہے دیکھیے اس پر کتنے ماہ ضائع ہوتے ہیں دونوں طرف سے براڈ شیٹ کے بیانیہ کو اپنے حق میں اور دوسرے کے مخالف استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر کچھ معلوم نہیں پڑ رہا۔ بقول نوید مرزا: ایک لہجے میں بولتے ہیں سبھی کون سچا ہے کون جھوٹا ہے میرا خیال ہے کہ ایک سچ میں جھوٹ ملاتا اور دوسرا جھوٹ میں سچ۔ حقیقت حال ارشاد نے کچھ بیان کی کہ ان کی اس پر کتاب بھی شائع ہو رہی، مختصر یہ کہ پرویز مشرف نے سیاسی پنچھیوں کو پھنسانے کے لئے یہ جال پھینکا تھا۔یعنی براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں کہ کچھ لوگوں کے لوٹے ہوئے پیسے کا معلوم کر کے بتایا جائے اس پر ان کو فیس بھی ملنا تھی اور دریافت شدہ دولت پر کچھ فیصد حصہ بھی، جب مشرف صاحب کو معلوم ہوا کہ انہوں نے کچھ پردہ نشینوں کو بھی ریڈار میں دیکھا ہے اس وقت پرویز مشرف کچھ ڈیل وغیرہ بھی کر رہے تھے۔ تو اس کمپنی کو روک دیا گیا کہ وہ اتنی بھی پھرتیاں نہ دکھائے مگر وہ ان پیاروں کو کیسے نظرانداز کر سکتے تھے کہ ان کا حصہ اس میں تھا۔ جو بھی انہیں منع کر دیا گیا۔ عمران خان کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہو گا کہ ان کے عہد میں کام کیسے چل رہا ہے۔ کہیں فیصل واوڈا کی دہری شہریت کی بات چل رہی ہے عدالت ان کے وکیل سے پوچھ رہی ہے کہ دہری شہریت انہوں نے کب ترک کی آئندہ وہ واوڈا کوبلا کر پوچھیں گے، جھوٹا بیان حلفی۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی وی کے چیئرمین نعیم بخاری کو کام سے روک دیا۔ وفاقی حکومت کسی کو چیئرمین نہیں بنا سکتی، قانون سے تجاوز ٹھیک نہیں اور تو اور ندیم افضل چن بھی وزیر اعظم کی مشاورت سے مستعفی ہو گئے۔ معاون خصوصی کو وزیراعظم کی پالیسی سے اختلاف تھا، آخر میں پھر وہی آغاز کہ اسامہ ستی کی بات۔ اب جوڈیشل انکوائری کے بعد رپورٹ سامنے آ چکی ہے۔ اسامہ ستی بے گناہ تھا۔ اس کا کسی ڈکیتی وغیرہ سے کوئی واسطہ نہیں۔ بالکل واضح ہے اسامہ کو قتل کرنے کے لئے دانستہ طور پر گولیاں ماری گئیں۔ گولیوں کے 18خول ملے ہیں پولیس افسران کی طرف سے ثبوت مٹانے کی کوشش بھی کی گئی۔ 1122کو غلط ایڈریس بتایا گیا، قتل کی رپورٹ کو چار گھنٹے تک خفیہ رکھی گئی۔ وزیر اعظم نے ستی کے والد سے ملاقات کی اور انہیں انصاف کا یقین دلایا۔ پوری قوم منتظر ہے کہ قاتلوں کو ان کے کیے کی سزا ملے گی: میرے بازو نہیں رہے میرے لو مرا آخری سہارا گیا پھر مرے ہاتھ پائوں چلنے لگے جب مرے ہاتھ سے کنارا گیا