پچاس کی دہائی وہ دورانیہ ہے جب سمٹتے ہوئے برطانیہ سے عالمی دادا گیر کا کردار امریکہ کو منتقل ہو رہا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں تیل نکل آیا تھا جسے نکالنے کے اوزار و ہنر مسلمانوں کے پاس نہیں تھے۔ امریکہ آگے بڑھا جہاں معاہدے سے بات بنی وہاں معاہدہ کیا اور جہاں لات مارنی پڑی وہاں لات مار کر اپنے مقاصد حاصل کئے۔ سعودیوں سے معاہدہ ہوا جبکہ ایران میں نوبت لاتوں تک جا پہنچی۔ اور یہی وہ پوائنٹ ہے جس پر مشرقِ وسطیٰ کی سیاست آج بھی اٹکی ہوئی ہے۔ مصدق سے شاہ ایران اور شاہ ایران سے موجودہ ایرانی ھکومت تک کے حالات پڑھ اور دیکھ لیجئے، امریکہ اور اس کی پالیسیاں سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے گی۔ پہلی خلیجی جنگ کی آڑ میں مشرق وسطیٰ پر امریکی قبضے کے نتیجے میں پہلی بار مشرق وسطیٰ میں ایسی عسکری تنظیم وجود میں آئی جو سنیوں کی تھی اور جس کا مقصد فلسطین نہیں بلکہ سعودی سرزمین کو امریکی قبضے سے چھڑانا تھا۔ پیسہ اسامہ بن لادن کے پاس بہت تھا اور خلیجی جنگ ایسے موقع پر ہوئی تھی کہ افغانستان سے سوویت انخلاء کے نتیجے میں عرب مجاہدین فارغ ہو رہے تھے۔ اگلے دس سال کے واقعات نے ثابت کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لئے ایک ایسا نیا چیلنج وجود میں آ چکا ہے جو دس سے 100 کلو گرام کے کار بموں سے اس کے کھربوں ڈالر داؤ پر لگا سکتا ہے۔ امریکہ نے حسنی مبارک سے بھی بات کی اور شاہ فہد سے بھی۔ حسنی مبارک نے تو ایک ایک دن میں دس دس لٹکانے شروع کر دیئے لیکن شاہ فہد نے ایسا نہ کیا۔ سعودی افغانستان سے فارغ ہونے والے عرب عسکریت پسندوں کے خلاف سخت لہجہ تو اختیار کرتے لیکن سخت اقدام نہ کرتے۔ اور وجہ اس کی بالکل عیاں ہے۔ امریکی فوج خلیجی جنگ کی آڑ میں سعودی عرب میں مستقل ڈیرے ڈال کر قابض ہو چکی تھی۔ اور جب اسے فوج نکالنے کا کہا جاتا تو وہ ایک معاہدہ دکھا کر کہتا کہ ہمیں تو سن فلاں تک آپ نے ہی یہاں رکھا ہے، اب تو ہم معاہدے میں طے شدہ مدت تک یہیں رہیں گے۔ یہ امریکہ کا وہی طریقہ واردات تھا جو وہ جزیرہ نما کوریا اور یورپ میں کامیابی سے چلا چکا تھا۔ اس صورتحال میں سعودی حکومت کچھ بھی نہ کرسکتی تھی کیونکہ امریکہ کے پاس معاہدہ موجود تھا اور دنیا معاہدوں کے تحت چلتی ہے۔ ایسے میں اگر کچھ سویلین امریکی مفادات پر حملے شروع کردیتے تو کیا سعودی کنگ ان کے خلاف کوئی سنجیدہ ایکشن لیتے ؟ کوئی مانے یا نہ مانے مگر نوے کی دہائی میں سعودی عرب میں فی الحقیقت یہی ہوا۔ سعودی حکومت اور ان کی سکیورٹی فورسز ان عسکریت پسندوں کے خلاف سخت بیان بازی ضرور کرتی رہی مگر ظاہر ہے وہ صرف باتیں تھیں جن کا مقصد خانہ پری کے سوا کچھ نہ تھا۔ سعودی عرب نے اسی حکمت عملی سے امریکی فوج سے جان چھڑائی۔ بالکل اسی طرح آج افغانستان میں بھی امریکہ ایک جبری معاہدے کے تحت اپنی فوج رکھنے کی کوشش کر رہا ہے جسے طالبان نہیں مان رہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب ایسا ملک ہے جس کا گہرا اثر دیگر عرب ریاستوں پر بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ تمام عرب ریاستوں میں امریکہ کے لئے دردِ سر پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ایسے میں امریکیوں کے پاس واحد آپشن یہی بچی تھی کہ وہ ایران سے ہاتھ ملا لیں اور انہوں نے باراک ابامہ کے دور میں یہی کیا۔ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں امریکہ، برطانیہ، ایران، لبنان، شام، یمن کے حوثی باغی اور داعش کی صورت وہ اتحاد وہ اتحاد وجود میں آیا جس کا نشانہ امریکہ کے ستر سال سے اتحادی چلے آرہے عرب ممالک نے ہی بننا تھا۔ عرب سپرنگ اور شام کی صورتحال اسی کا شاخسانہ تھی۔ مگر پھر ایک پاگل امریکہ کا صدر بن گیا جس نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ اس صورتحال میں لبرلز یعنی مختلف این جی اوز کے لئے کام کرنے والے یا مختلف یورپی سفارتخانوں کے لئے چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ کرنے والے ذہن سازی کی خاطر ہمیں یہ باور کرانا بھی شروع کردیا تھا کہ قصور بس ہمارا ہے، ہم نے عسکری تنظیمیں پالیں جس کے نتیجے میں یہ سب ہو رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ بیانیے جھوٹے پروپیگنڈے کے لئے باقاعدہ تخلیق کئے جاتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا تھا کہ مسلمانوں نے بیٹھے بیٹھے عسکری تنظیمیں بنالی تھیں۔ ان تنظیموں کے وجود میں آنے کا سبب امریکی پالیسیاں ہیں جن کا یہ لبرلز دفاع کرتے ہیں اور بہت سستے داموں کرتے ہیں۔ امریکہ نے جاپان سے ویت نام تک اور وہاں سے عراق تک اتنے قتلِ عام کئے کیا آپ نے آج تک ان لبرلز سے امریکہ کے خلاف کچھ سنا ؟ کیا انہیں کبھی دنیا کی بد امنی کے اصل روٹ کاز پر بات کرتے دیکھا ؟ یہ تو اس قدر منافق ہیں کہ چی گویرا کی عظمت بھی بیان کریں گے لیکن اس کے دشمن کا ذکر بھی بڑی صفائی سے گول کر جائیں گے۔ آپ لبرل اور رائٹسٹ کے بیانیے لپیٹ کر ایک جانب رکھ دیجئے۔ آپ بس ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے امریکہ کی گزشتہ ستر برس کی تاریخ دیکھ لیجئے آپ کو سب سمجھ آ جائے گا۔ اور آپ یہ بھی سمجھ جائیں گے کہ عسکریت کا اصل محرک کیا ہے اور یہ وار مشینیں کس کے اہداف و مقاصد کے لئے وجود میں آتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطی میں بحری بیڑے بھیجتا تو نظر آرہا ہے لیکن اگر وہ واقعی ایران کے خلاف کسی ایکشن کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ بات طے سمجھئے کہ ایک بار پھر سول عسکری تنظیمیں وجود میں آتی نظر آئیں گی۔ ایسا آج تک نہیں ہوا کہ امریکہ نے کسی ملک کے خلاف جارحیت کی ہو اور وہاں عسکری تنظیمیں وجود میں نہ آئی ہوں۔ ہم جہاں یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ افغانستان میں جنگ بندی اور امریکی انخلاء کے نتیجے میں امن ہوگا وہیں اب ایک نیا ممکنہ خطرہ سر اٹھا چکا ہے اور اگر یہ خطرہ حقیقت بنا تو ہم اس کی زد میں ہونگے کیونکہ جنگ کے مہلک اثرات ہمیشہ پڑوسی ممالک پر مرتب ہوتے ہیں۔ہم معاشی لحاظ سے ایک بحرانی دور سے گزر رہے ہیں ایسے میں یہ صورتحال ہمارے لئے نہایت خطرناک ہوجائیگی اور ہمارا سی پیک بھی ایک خواب بن کر رہ جائے گا !