6اکتوبر2020ء بدھ کوسعودی عرب کے امریکہ میں سابق سفیر اور سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ بندر بن سلطان کااپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہناتھا کہ فلسطینی خود دھڑوں میں منقسم ہیں۔ غربِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی غزہ کی خود ساختہ حکمران جماعت حماس کو غدار قرار دیتی ہے۔ اس صورت حال میں کوئی دوسرا ان کے نصب العین کی کیا وکالت کر سکتا ہے۔ العربیہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں شہزادہ بندر بن سلطان کاکہناتھا کہ فلسطینی قیادت تاریخی طور پر ناکام رہی ہے۔ اس کی ناکامیوں کا یہ سفر ہنوز جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں فلسطینی قیادت سے جو کچھ سنا گیا ہے، وہ فی الواقع بہت ہی تکلیف دہ اور افسوسناک تھا۔ اس نچلی سطح کے بیانیے کی ہم ان عہدے داروں سے بالکل بھی توقع نہیں کرتے ہیں جو عالمی حمایت کے حصول کے خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی لیڈرشپ کا خلیجی ریاستوں کی قیادت کے بارے میں معاندانہ ناروا رویہ بالکل ناقابل قبول ہے۔واضح رہے کہ صدر محمود عباس سمیت فلسطینی لیڈروں نے متحدہ عرب امارات اوربحرین کے اسرائیل کے ساتھ ستمبر 2020ء میںطے شدہ ’’ معاہدہ ابراہیمی‘‘ کو فلسطینی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ جبکہ حماس سمیت دیگر تمام جماعتوں نے اس معاہدے کو عرب ریاستوں کافلسطین کاز سے دھوکہ کرنے کے مترادف قراردیا۔ شہزادہ بندر کے بقول غزہ میں حماس اور غربِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی کا نئے امن معاہدوں پر ردعمل ان کی وسیع تر ناکامی کا مظہر ہے۔ ان کاکہناتھاکہ گذشتہ برسوں کے دوران میں فلسطینی کاز ، امن اقدامات اور فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس انداز میں کوششیں کی جانا چاہییں تھیں کہ جس سے کسی ایسے نقطے تک پہنچا جاسکتا ۔بندرکایہ انٹرویوبڑااہم ماناجاتاہے کیوںکہ ا س سے فلسطین کے حوالے سے مستقبل کے لئے سعودی عرب کاکرداروعمل واضح ہورہاہے۔ امریکی صدراپنے طورپربندربانٹ کرکے تنازع فلسطین کے حل کے لیے ایک منصوبہ ترتیب دے چکے تھے اور اسے ’’ ڈیل آف دی سنچری کا نام‘‘ دیاگیا۔ صدر ٹرمپ کے داماد اس ڈیل کے خالق تھے۔صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر نے 30 مئی2019ء کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات میں انہیں اسرائیل کا نیا نقشہ پیش کیا جس میں شام کی گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کا حصہ دکھائی گئی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں یہ نقشہ میڈیا کو دکھایا اور کہا کہ انہیں صدر ٹرمپ نے خاص تحفہ بھیجا ہے۔ یہ نقشہ امریکی محکمہ خارجہ نے جاری کیا اور اس پر صدر ٹرمپ کے دستخط بھی تھے۔جارڈ کشنر نے 28 مئی سے مشرق وسطی کا دورہ شروع کیا اور ان کی پہلی منزل مراکش تھی، اس سے اگلے دن وہ اردن پہنچے اور آخری پڑا ئو تل ابیب تھا۔ دورے کا بظاہر مقصد 25، 26 جون کو بحرین میں ہونے والی کانفرنس کی دعوت دینا تھا لیکن ان کے ساتھ ایران کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے برائن ہک کی موجودگی معنی خیز تھی۔ اب تک سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے منامہ کانفرنس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ روس، چین اور فلسطین بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔اس منصوبے کے تحت اسرائیل، پی ایل او اور حماس کے درمیان سہہ فریقی معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی جسے نیو فلسطین کا نام دیا جائے گا۔ یہ ریاست مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ہوگی تاہم اس میں یہودی بستیاں شامل نہیں ہوں گی۔ اس ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس سے متصل علاقہ ابو دیس ہوگا۔ اسرائیل معاہدے کے تحت 3 سال کے عرصے میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ غزہ اور مغربی کنارے میں بسائی گئی یہودی بستیاں اسرائیل کا حصہ رہیں گی۔ بیت المقدس کو تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ اسرائیل اور نیو فلسطین دونوں اسے شیئر کریں گے اور انتظام اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔ بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینی نئی فلسطینی ریاست کے شہری ہوں گے اور یہودی اسرائیلیوں کو بیت المقدس میں فلسطینیوں کی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ غزہ کے رہائشیوں کے لیے مصر ایئرپورٹ، فیکٹریاں تعمیر کرے گا اور زرعی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ اس کاروباری علاقے میں فلسطینیوں کو رہائش رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ غزہ اور مغربی کنارے کو ملانے کے لیے ہائی وے تعمیر کی جائے گی۔ امریکا، یورپی یونین اور خلیجی ریاستیں اس منصوبے اور نئی ریاست کو 5 سال تک فنڈز فراہم کریں گے۔ سالانہ 6 ارب ڈالرز کا 70 فیصد خلیجی ریاستیں، 20 فیصد امریکا اور10 فیصد یورپی یونین ادا کرے گی۔’’ نیو فلسطین‘‘ کو فوج رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی تاہم پولیس فورس بنا سکے گا۔ اسرائیل دفاعی معاہدے کے تحت نیو فلسطین کے دفاع کا ذمہ دار ہوگا۔ معاہدہ طے پانے پر حماس اپنا تمام اسلحہ مصر کے حوالے کردے گی۔حماس کے رہنمائوں کو عرب ریاستیں معاوضہ اور ماہانہ تنخواہیں ادا کریں گی۔اسرائیل، مصر اور غزہ کے درمیان سرحدیں فلسطینی عوام کی آمد و رفت اور سامان کی ترسیل کے لیے ہمہ وقت کھلی رہیں گی۔ فلسطینی عوام کو اسرائیلی ہوائی اڈے اور بندرگاہیں استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ نیو فلسطین کے قیام کے ایک سال کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے۔ نیو فلسطین کے اردن کے لیے2 کراسنگ پوائنٹ ہوں گے جن پر نیو فلسطین کا ہی کنٹرول ہو گا۔ وادء اردن اسرائیل کے قبضے میں ہی رہے گی۔ اگر حماس یا فلسطین اتھارٹی اس معاہدے سے انکار کرے گی تو امریکا نہ صرف خود اس کی امداد روک دے گا بلکہ دیگر ملکوں کو بھی امداد روکنے پر مجبور کرے گا۔ اگر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس معاہدے پر دستخط کردیں اور حماس اور اسلامک جہاد اسے تسلیم نہ کریں تو امریکی سرپرستی میں غزہ پر مکمل جنگ مسلط کردی جائے گی۔ اگر اسرائیل اس ڈیل سے انکار کرے گا تو امریکا اس کی مالی مدد روک دے گا۔ امریکا اسرائیل کو سالانہ 3 اعشاریہ 8 ارب ڈالر مالی امداد مہیا کرتا ہے۔ اس دوران سعودی عرب نے 2جون 2019ء کو او آئی سی کا اجلاس بلایااوراس کے کئی سیشن چلے جس کے بعد اعلامیہ سامنے آیااور اعلامیہ کا بڑا حصہ قضیہ فلسطین پرمحیط تھا۔ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے والوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے سفارتخانے القدس سے باہر منتقل کریں، اعلامیہ میں مسئلہ فلسطین کے 2 ریاستی حل کے سوا کسی اور منصوبے کو ماننے سے انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ فلسطین کی ریاست 1967 ء کی جنگ سے پہلے کے نقشے پر وجود میں لائی جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں سمیت عرب ملکوں سے ہتھیائے گئے تمام علاقے خالی کرے۔ گئے تھے۔لیکن عرب ملکوں کا فلسطین کاز پر پرانے موقف کو دہرانا فلسطینی قیادت کو مطمئن نہیں کرسکا۔ فلسطینی تاجروں نے بھی اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس سے واضح ہے کہ فلسطینی عوام بھی عرب ملکوں کے اعلامیے اور وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی۔