آج کا کالم میں روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کی کالمسٹ سعدیہ قریشی اور روحی بانو کے نام موسوم کرتا ہوں پہلے ذکر سعدیہ قریشی کے ایک شاندار کالم کا سعدیہ قریشی نے دو دن پہلے جمعہ کو جو کالم ،،غم زدہ لوگوں کو پروڈ کٹ سمجھنے والا میڈیا،، کے عنوان سے لکھا، اسی موضوع پر میں بھی آج لکھنے والا تھا، مگروہ بازی لے گئی، ایک نیم حکیم ٹی وی اینکر نے سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جانے والے معصوم بچے کو کیمرے کے سامنے بٹھا کر صحافت کی جو دھجیاں بکھیریں وہ خود اس کے ادارے کے منہ پر بھی طمانچہ تھا اس کے اپنے منہ پر بھی اور سعدیہ قریشی نے اسے ہی نہیں اس ٹائپ کے سارے اینکروں اور صحافیوں کو اپنے قلم سے بے نقاب کیا، سعدیہ قریشی نے آزاد کوثری مرحوم کی شاگردی کا حق ادا کر دیا، انہوں نے صحافتی غنڈہ گردی پر جو الفاظ لکھے شاید میں نہ لکھ پاتا،ماں باپ اور اپنی نوجوان بہن کو اپنے سامنے گولیوں کی بوچھاڑ سے قتل کا منظر دیکھنے والے اس بچے کو ٹی وی کیمرے کے سامنے بٹھانے کی غلطی کرنے والا ہماراپرانا ساتھی ہے، شاید میں کالم لکھتا تو اس کا لحاظ کر جاتا، وہ صحافیوں کی ٹریڈ یونین کا لیڈر بھی رہ چکا ہے، لیکن اس زمانے میں اس کے پاس قیمتی لباس نہیں ہوا کرتے تھے، قیمتی گاڑی نہیں ہوا کرتی تھی وہ پیدل پھرا کرتا تھا۔وہ روز نئی اور میچنگ ٹائی نہیں لگایا کرتا تھا، وہ جن کپڑوں میں سوتا تھا انہی کپڑوں میں صحافیوں کے احتجاجی مظاہروں میں شامل ہو جایا کرتا تھا، وہ ٹی وی مالکان کی نظر میں آگیا اور انہی کے مطلب کا اینکر بن گیا ہے، الیکٹرانک صحافت نے بہت سارے میڈیا ورکرز کو بھی الیکٹرانک کھلونے بنا دیا ہے جو کبھی صحافی تھے ہی نہیں ،صحافت میں ملک ریاضیت کا بھی عنصر شامل ہو چکا ہے، ان سے ان کا شعور اور ان کے دماغ تک گروی رکھ لئے گئے ہیں، ایسے لوگ اب ایشوز پر نہیں سوچتے ان کا سارا دھیان اپنے نت نئے لباس پر ہوتا ہے، میں سعدیہ قریشی کو اتنا طاقت ور کالم لکھنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔۔ اور اس پرانے ساتھی سے جس نے سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جانے والے بچے کا انٹرویو کیا کہتا ہوں کہ وہ خود اسکرین کے سامنے آئے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرے، بھائی اگر آپ نے یہ فاش غلطی کر ہی لی تھی اور بچے نے آپ کے کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا تھا تو پھر یہ انٹرویو چلایا کیوں گیا، اگر آپ اپنے ہی ٹی وی کی اسکرین پر معذرت نہیں کرتے تو میں دوسرے پڑھے لکھے اور سماجی شعور رکھنے والے اینکرز سے درخواست کروں گا کہ وقتاً فوقتاً آپ کا پوسٹ مارٹم کرتے رہیں اور اس غلطی کو دوسروں کیلئے مثال بنا دیں، صحافتی اصولوں کا تقاضہ تھا کہ اس سانحہ میں بچ جانے والے بچوں سے کوئی ایک بھی سوال نہ کیا جاتا، سوال ان بچوں کو عمر بھر کیلئے ذہنی مریض بنا سکتے ہیں۔ زندہ باد سعدیہ قریشی، اللہ کرے آپ کا کالم ہم سب صحافیوں کیلئے سبق بنے اور آئندہ ہماری راہنمائی کرتا رہے۔ میرے پاس تو طاقت ہی نہیں کہ وہ سوال ہی دہرا دوں جو ہمارے دوست نے اس بچے سے کئے۔ ٭٭٭٭٭ ماضی میں سب سے زیادہ چاہی جانے والی ٹی وی آرٹسٹ روحی بانو کی ترکی کے ایک اسپتال میں انتقال کر جانے کی خبر مجھے ہضم نہیں ہو رہی ، لگتا ہے کہ وہ کئی ہفتے یا کئی مہینے پہلے لاہور میں ہی مر گئی تھی اسے خاموشی سے دفنا دیا گیا، اب شاید کسی مقصد کے لئے اس کی بیرون ملک موت کی کہانی پھیلائی گئی ہے، ارسٹھ برس کی روحی بانو کو تو کوئی بیماری تھی ہی نہیں، ایم اے نفسیات کی ڈگری لینے کے بعد روحی بانو صرف نفسیات کی مریض تھی، جب اسے اسپتال کی ضرورت تھی اس کی بہن اور بھائی نے اسے پاگل خانے میں پہنچا دیا تھا، میں نے اسے پاگل خانے سے باہر لا کر اس کے دو انٹرویو کئے تھے جو یو ٹیوب پر موجود ہیں، جن لوگوں نے وہ انٹر ویوز ایک چینل پر دیکھے تھے وہ گواہ ہیں کہ پاگل خانے میں بھجوا دی جانے والی عظیم اداکارہ کو کسی قسم کا کوئی عارضہ لاحق نہ تھا۔ وہ کہتی تھی کہ اس کی بہن اور بہنوئی اس کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لئے اسے پاگل قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں وہ اس کی موت کا سامان کر رہے ہیں، وہ آٹھ سال پہلے اپنے بیٹے کے پر اسرار قتل کے بعد بالکل تنہا رہ گئی تھی، اس کے بیٹے کو کس نے قتل کیا؟ اس معمہ سے بھی پردہ نہ اٹھ سکا، جب اس کی پیروی کرنے والا ہی کوئی نہ تھا، پولیس کو کیا ضرورت تھی کہ وہ علی کے قتل کی تحقیقات کرتی، نہ پولیس کو پیسے دے کرمتحرک کرنے والا کوئی شخص موجود تھا اور نہ ہی شہر میں کوئی ایسا کرائم رپورٹر ہی تھا جو اس قتل کے فالو اپ پر لگا رہتا۔۔۔۔۔لاہور میں تو روحی بانو کو دو وقت کی روٹی دینے والا بھی کوئی نہ تھا ،پھر اسے نا معلوم مرض کے علاج کیلئے کون اور کیوں ترکی کے کسی اسپتال تک لے گیا؟ ابھی دو تین ماہ پہلے ہی کی بات ہے جب روحی بانو کو روزانہ گلبرگ سڑک پر دیکھنے والوں کو وہ دکھائی دینا بند ہوگئی تو شور مچ گیا تھا، میڈیا نے بھی اس کی گمشدگی کا نوٹس لیا تھا، اس کا جواب اس کی بہن یاسمین نے دیا، وہ کہہ رہی تھی کہ روحی بخیر اور با حفاظت ہیں، یہ ایک گول مول جواب تھا، مجھے اس کی اس بات سے تسلی نہیں ہوئی تھی، اب سوال یہ ہے کہ، روحی بانو زندہ بھی ہے یا نہیں، اس کی مبینہ موت پر اعلیٰ حکومتی لوگوں نے بھی اظہار افسوس کیا ہے اور بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن رہنماؤں نے بھی فن اداکاری میں اس کی خدمات کو سراہا ہے، حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اگر وہ واقعی ترکی میں انتقال کر گئی ہے تو اس کی لاش پاکستان لانے کا بندوبست کیا جائے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی فوراً حرکت میں آجانا چاہئے، انہیں تصدیق کرنا ہوگی کہ کیا واقعی اسے ترکی لے جایا گیا تھا؟ وہ کب بیرون ملک گئی؟ کیا اس کے پاس پاسپورٹ تھا؟ اس کے سفری اور اسپتال کے خرچے کس نے اٹھائے؟ طب کے ماہرین بھی بتائیں کہ کیا واقعی چلتی پھرتی لاشوں کا علاج ہو جاتاہے؟ روحی بانو نے ایک شان دار ماضی گزارا،اس کے ٹی وی ڈراموں کو پونا کے فلم ایکٹنگ اسکولز میں پڑھایا جاتا رہا ہے، اس کے علاوہ عظمی گیلانی اور دو چار ہی مزید اداکارائیں گزری ہیں جو ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، میں جب پہلی بار جدید پاگل خانے فاؤنٹین ہاؤس میں اسے ملا تھا وہ دوسرے مریضوں کی طرح قید میں نہیں تھیں، وہ تو وہاں اصلی دماغی مریضوں کی کونسلنگ کر رہی تھی ان میں شفا بانٹ رہی تھی، اس نے مجھے بتایا کہ اس کی کونسلنگ کے باعث بہت ساری عورتیں ٹھیک ہو کر گھروں میں واپس جا چکی ہیں، اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کی طرح اس اسپتال میں آدھی عورتیں ایسی ہیں جو نارمل ہیں اور ان کے لواحقین انہیں زبردستی پاگل قرار دے کر یہاں چھوڑ گئے ہیں، میں نے اس سے پوچھا کہ اسپتال والے ان نارمل عورتوں کو یہاں ایڈمٹ کیوں اور کیسے کر لیتے ہیں، اس نے جواب دیا کہ لواحقین انہیں یہاں رکھنے کے اخراجات اسپتال والوں کو دیتے ہیں، اس نے جواب دیا کہ لواحقین انہیں یہاں رکھنے کے اخراجات اسپتال والوں کو دیتے ہیں، ان میں لوگوں کی مائیں بھی ہوتی ہیں، بیٹیاں بھی اور بہنیں بھی روحی بانو کی یادداشت بھی کمال کی تھی اس نے مجھے اپنے ایک دورہ بھارت کا مکمل احوال بھی سنایا تھا، اسے عصمت چغتائی اور اس کے شوہر سے ملاقات کی پوری کہانی بھی سنائی تھی، وہ طارق عزیز کی آواز کی نقل بھی کر رہی تھی، اس نے مجھ سے یاور حیات صاحب کی خیریت بھی دریافت کی تھی، اور تو اور اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، تم انہی نعیم ہاشمی صاحب کے بیٹے ہو ناں،جو ملبوساتی فلموں میں بھی کام کیا کرتے تھے اور شاہ زادوں اور بادشاہوں کے کردار بھی کیا کرتے تھے؟ اب آپ ہی بتائیں ،، کیا روحی بانو واقعی پاگل تھی؟ دوسری بار میں اسے فاؤنٹین ہاؤس سے اس کی ایک دور دراز کی رشتہ دار خاتون کے گھر لے گیا جس کا خاوند بیرون ملک رہتا تھا اور جو ان دنوں لاہور آیا ہوا تھا، ان کی ایک بیٹی یونیورسٹی کی طالبہ تھی اور بالکل روحی بانو کی طرح خوبصورت اور ذہین تھی، روحی نے ان سب کو پہچان لیا تھا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے ہی گھر میں موجود ہے، وہاں روحی نے میرا لایا ہوا سوٹ پہنا اور اس گھر کے ایک کمرے میں جا کر اپنا میک اپ بھی خود کیا تھا، اس دن روحی بانو نے ہمیں کئی اداکاروں کی نقلیں اتار کر دکھائیں اور کئی اردو پنجابی گانے بھی سنائے تھے، شاید لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ استاد ذاکر علی خان کی کزن بھی تھیں، اب میں پھر آپ کے سامنے اپنا سوال دہراتا ہوں کہ کیا روحی بانو واقعی پاگل تھی، اگر نہیں تو اسے پاگل خانے میں کیوں داخل کرایا گیا تھا جس پاگل خانے کے ڈاکٹروں کا بھی وہ ہاتھ بٹایاکرتی تھی۔