انسان کی زندگی کی طرح اقتدار بھی بے وفا ہوا کرتا ہے جب انسان کے پاس اقتدار ہوتا ہے تو وہ اپنے سوا کسی کو کچھ نہیں سمجھتا بس اُس کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ شاید اب وقت ٹھہر گیا ہے اور اب سب کچھ میرے پاس ہے۔ وہ جاگتے ،سوتے ،چلتے ،پھرتے عارضی پروٹوکول اور جاہ جلال کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر اُس کی آنکھ اُس وقت کھلتی ہے جب اچانک اقتدار اُس سے چھین لیا جاتا ہے۔ سردار عثمان احمد خان بزدار ویسے تو کئی لحاظ سے خوش قسمت ہیں لیکن اقتدار جاتے جاتے بھی اُن سے چمٹا رہا۔ مارچ کے آخری ہفتہ اُنہوں نے اپنا استعفیٰ سابق وزیر اعظم عمران خان کو پیش کیا اور پھر مارچ سے ہوتا ہوا اُن کااستعفیٰ کئی مراحل سے گزرتا رہا اور وہ اپریل کے آخر تک نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اِس دوران وزارت اعلیٰ کے کئی اُمیدوار سامنے آتے رہے اور تبدیل ہوتے رہے جن میں چوہدری پرویز الہٰی ، علیم خان اور موجودہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف شامل تھے پھر گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ ، سردار عثمان احمد بزدار کے لیے ڈھال بن گئے اور یوں مزید پندرہ دن وہ وزیر اعلیٰ رہے ۔ شاید اقتدار کی دیوی اُن سے جدا نہیں ہونا چاہتی تھی لیکن قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے جس شخص کو گھر میں بیٹھے بیٹھائے وزارت اعلیٰ مل گئی تھی اور جن کو یہ یقین بھی نہیں تھا کہ وہ ہماری سرائیکی کی مثا ل ہے کہ نہ ہنگ لگے نہ پھٹکڑی یعنی تھوڑا سا خرچہ کئے بغیر بھی ہر چیز مل جائے۔ یہی صورتحال عثمان بزدار کے ساتھ رونما ہوئی اور وہ تحریک انصاف کے نہ تو بنیادی رکن تھے اور نہ ہی اُنہوں نے کوئی خرچ کیے تھے ۔بس اللہ دے اور بندہ لے، والی کیفیت اُن کے ساتھ اچانک رونما ہوئی۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ تین سال آٹھ مہینے تک وہ اقتدار کی بڑی کرسی پر براجمان رہے اور اپنے آبائی علاقے میں خوب سے خوب ترقیاتی کام کرائے۔ اپنی سادگی اور متانت کو آخر تک برقرار رکھا اپنے دور اقتدار میں پُورے بزدار قبیلے کو عزت اور احترام دیا۔ ڈیرہ غازی خان کے تمام انتظامی اور دیگر سرکاری اداروں میں بزدار چھائے نظر آئے ۔ پہلے لاکھ پتی بھی نہیں تھے آج بھی شاید نہ ہوں انہوں کی شہرت لوٹ مار کرنے کی نہیں کام کراونے کی رہی۔ سردار عثمان بزدار ایک بڑے اقتدا رسے محروم ہو چکے ہیں وہ اب دوبارہ اپنے گھر بارتھی اور تو نسہ آچکے ہیں لاہور کی فضاؤں کو چھوڑنا بڑا ہی مشکل ہوتا ہے اور وہ بھی اقتدار کی شامیں کہ جو بڑی ہی دلفریب اور مستی سے بھرپور ہوا کرتی ہیں لیکن عثمان بزدار اقتدار کے نشے میں ملنے والی مستی سے دور رہے وہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی اقتدار کے دنوں میں بھی رہے ۔ اور اپنے پیچھے کسی قسم کی عیاشیوں کی داستانیں نہیں چھوڑ کر گئے۔ باقی غیب کی باتیں ماسوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا ہم سب کی اصلیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ کہ ہم اندر سے کیا ہیں ہماری چھپی ہوئی خفیہ باتیں یہاں تک سینوں میں آنے والے تمام وسوسے بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم تو صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں اور کسی بھی شخص کے ظاہری حرکات کو دیکھ کر رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ویسے تو سردار عثمان بزدار بھی بڑے ہنس مکھ اور سادہ شخصیت کے مالک ہیں آپ اُن کے پاس بڑے سے بڑا کام بھی لے کر جائیں گے تو وہ اُسی وقت حامی بھر لیں گے ۔ڈیرہ غازی خان میں اُنہوں نے اپنے والد کے نام پر فتح محمد خان بزدار انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی تعمیر کرایا ہے جو ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ اُنہوں نے تونسہ اور بارتھی میں بہت زیادہ ترقیاتی کام کرائے ہیں جبکہ کچھ ابھی ہونا باقی تھے کہ اُن کے اقتدار ہی ختم ہو گیا ۔ اقتدار ایسی ظالم چیز ہے کہ جونہی انسان اِس سے محروم ہوتا ہے تو بیوروکریسی بھی طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتی ہے جیسے دیکھنے میں آیا کہ جب سردارعثمان بزدار عید منانے کے لیے بارتھی آئے تو کوئی کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، آر پی او اور ڈی پی او اُن کو عید تک نہیں ملنے گیا حالانکہ یہ سب افسران سردارعثمان بزدار نے کچھ عرصہ قبل یہاں پر لگائے تھے لیکن اب اپنے نئے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف کو ناراض کرنے اور معطل ہونے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا اقتدار کتنا بے وفا اور عارضی ہوتا ہے کہ کل تک سیلوٹ مارنے والے ہتھکڑی لگانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ واقعی دنیا ایک بہت بڑا فتنہ اور آزمائش ہے جس سے بچ کر رہنا چاہیے کہ اگر اقتدار مل جائے انسان پھر بھی اِس کے چھین جانے سے خوف زدہ رہتا ہے اور اگر چلا جائے تو انسان بے بس ہو جاتا ہے ۔