اِیران اور سعودی عرب نے سات سال سے زائد عرصے سے منقطع رہنے کے بعد تعلقات بحال کرنے اور دو ماہ کے اندر اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس بات کا اعلان چار روزہ مذاکرات کے نتیجے میں بیجنگ میں جمعہ 10 مارچ کو ہونے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں کیا گیا۔ اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ کو طویل عرصے سے منقسم کرنے والے شدید تنازع میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ چین نے اچھے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور مشرق وسطیٰ کے دو تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان برف پگھلانے میںکامیاب ہوا ۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد جہاں مشرق وسطیٰ میں چین کا کردار بڑھتا نظر آرہا ہے وہیں یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار کم ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب نے 2016 میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے جب تہران میں سعودی سفارت خانے پر ایرانی مظاہرین نے حملہ کیا تھا اور اسے جلا دیا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر باقر النمر کی پھانسی کے ردِ عمل کے طور پر اِیران میں مظاہرین نے سعودی عرب کے خلاف جلوس نکالے اور تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا جس سے ناراض ہو کر سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ مشہور شیعہ عالم شیخ نمر سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں، جو سنی اکثریتی ملک میں شیعہ اکثریتی علاقہ ہے، ایک اہم شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس کے بعد سے، سعودی عرب کی جانب سے ایران پر حوثی باغیوں کو ہمسایہ ملک یمن میں ہتھیار فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا جنہوں نے 2015 میں ملک کی مغربی حمایت یافتہ حکومت کو بحال کرنے کے لیے سعودی زیرقیادت اتحاد کے خلاف بغاوت کی تھی۔ 2019 میں سعودی تیل کی تنصیبات پر حوثی ڈرون حملوں کی لہر کے بعد کشیدگی نئی بلندیوں پر پہنچ گئی، جس سے مملکت کی تیل کی پیداوار کا نصف حصہ ختم ہو گیا۔ اس وقت، امریکی حکام نے کہا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ حملہ ایرانی سرزمین سے کیا گیا تھا جبکہ تہران نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔ ایران اور سعودی عرب 2021 سے عراق اور عمان کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیتے ہوئے اِیک دوسرے سے رابطے کرتے رہے ہیں۔ اپریل 2021 میں، ایران اور سعودی عرب نے اپنے سرکاری تعلقات منقطع کرنے کے بعد بغداد میں اپنی پہلی براہ راست بات چیت کی جبکہ اپریل اور ستمبر 2022 کے درمیان عراق اور عمان کی ثالثی میں مذاکرات کے چار مزید دور ہوئے ۔ مشرق وسطیٰ اور خلیجی خطے پر اِس معاہدے کے کیا اثرات ہوں گے؟ اگر سعودی ایران معاہدہ آگے بڑھتا ہے اور اعلان کردہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ ایک حقیقی گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے جو اس خطے میں امن اور خوشحالی کے دور کا اعلان کرے گا جو دہائیوں سے نہیں دیکھا گیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان میل جول خاص طور پر یمن اور شام کے تنازعات اور بالعموم مسلم دنیا میں شیعہ سنی تنازعات کے خاتمے کے لیے مثبت طور پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ یہ معاہدہ یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے گا۔ پاکستان ہمیشہ سے ان دونوں برادر مسلم ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا حامی رہا ہے اور ان کے مابین تعلقات کی بہتری کے لیے وقتاً فوقتاً اپنی خدمات کی پیشکش کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اِس "کامیابی" کا خیرمقدم کیا ہے اور سعودی عرب اور ایران کی قیادت کو مبارکباد دی ہے۔ اس معاہدے میں چین کے کردار کا مقصد غالباً امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا محور بدل رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے چین کے عروج کو 21 ویں صدی کا واحد سب سے بڑا جغرافیائی سیاسی چیلنج قرار دیا ہے، حالانکہ وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے کوآرڈینیٹر برائے اسٹریٹجک کمیونیکیشن جان کربی نے جمعے کے روز سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں مداخلت کرنے پر چین کے کردار پر تنقید کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ امریکہ کی براہ راست مداخلت کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک بیجنگ کی شمولیت "کافی حیران کن" ہے کیونکہ بیجنگ نے بڑے پیمانے پر مشرق وسطیٰ میں سیاسی مداخلت سے ہمیشہ گریز کیا ہے جبکہ اقتصادی تعلقات کو گہرا کرنے پر توجہ دی ہے۔ چین خطے سے توانائی کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور چین منڈیوں تک طویل مدتی رسائی حاصل کرنے میں سعودی عرب اور ایران سمیت بڑے ممالک میں کافی دلچسپی رکھتا ہے۔ اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ بیجنگ نے حتمی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے بنیادی طور پر میزبان اور سہولت کار کے طور پر کام کیا ہے، اس کے باوجود، اِس معاہدے کا عراق پر اَمریکی حملے کی 20 ویں برسی سے چند دن پہلے طے ہونا ایک بہت ہی قابل اعتماد علامتی قدم خاص طور پر اہم پیغام کا حامل ہے۔ ایک اور اہم سوال ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ امریکہ کو اِس معاہدے سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا یہ امریکہ کے لیے سعودی قیادت کی عدم دلچسپی کی نشاندہی کرتا ہے؟ میرے خیال میں، ایسا نہیں ہے۔ اَمریکی صدر بائیڈن نے جولائی 2022 میں سعودی مملکت کا دورہ کیا جسے دسمبر 2022 میں صدر شی جن پنگ کے تین روزہ سعودی عرب کے دورے کے مقابلے میں کامیاب قرار نہیں دیا گیا۔ جبکہ چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کے اپنے دورے کو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں "ایک نئے دور" کے طور پر پیش کیا۔ جبکہ سعودی ولی عہد نے چینی صدر شی جن پنگ کا شاندار استقبال کیا جو جولائی میں امریکی صدر جو بائیڈن کے استقبال کے برعکس تھا۔ جہاں تک ثالث کے طور پر چین کے کردار کا تعلق ہے یہ فطری بات ہے کہ مذاکرات/ثالثی ایسے ثالثوں کے ذریعے کی جاتی جنہیں دونوں فریق منصفانہ یا غیر جانبدارانہ اور مفادات کے تصادم کے بغیر قبول کرتے ہیں۔ چین کو اس کام کے لیے خاص طور پر ایران اور سعودی عرب دونوں کا اعتماد حاصل ہے کیونکہ چین کی علاقائی جارحیت اور استعمار کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ خریدتا ہے جس کا تخمینہ 1.75 ملین بیرل یومیہ ہے۔ اس لیے چین مشرق وسطیٰ اور خلیجی خطے سے توانائی کی برآمدات کی محفوظ اور بلا تعطل ترسیل چاہتا ہے جسے سعودی عرب اور ایران کے مابین حالیہ ڈیل جیسے معاہدے ہی یقینی بنا سکتے ہیں۔