سعودی ایران کشیدگی اس ہفتے اچانک ہی ایک غیر متوقع موڑ مڑگئی۔ مشرقی سعودی علاقے میں آرامکو کی دو آئل ریفائنریاں میزائل حملوں میں بڑی حد تک تباہ کر دی گئیں جو مملکت کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ ان میں الدمام کے قریب بوقیق کی آئل ریفائنری دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری مانی جاتی ہے۔ دوسری ریفائنری مزید مغرب میں ہے۔ دونوں کی تباہی سے مملکت کی تیل کی آدھی پیداوار بند ہو گئی اگرچہ سعودیہ نے محفوظ ذخائر کو استعمال میں لا کر عالمی سپلائی کم نہیں ہونے دی۔ جتنی پیداوار بند ہوئی ہے، وہ عالمی سپلائی کا 5فیصد ہے۔ حملے کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی اور کہا کہ انہوں نے دس ڈرون چلائے لیکن نقشہ دیکھ کر کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ حملہ حوثیوں نے نہیں کیا۔ دونوں مقامات حوثیوں کے زیر قبضہ شمالی یمن کی سرحد سے 1100کلو میٹر دور ہیں، ڈرون حملوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس یہ مقامات خلیج فارس کے ساحل سے قریب ہیں، بالخصوص بوقیق کا مقام جو ساحل سے چند کلو میٹر ہے۔ تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔ حملہ شمال سے ہوا یعنی عراقی سرزمین سے، ایرانی علاقے سے کروز میزائل چلے، خلیجی پانیوں میں کسی جہاز پر سے حملہ ہوا۔ امریکہ اور سعودی عرب دونوں نے حوثیوں کا دعویٰ مسترد کر دیا ہے اور ذمہ داری ایران پر ڈالی ہے۔ معاملہ اس طرح سنگین ہو جاتا ہے لیکن اب ہو گا کیا؟ کیا سعودی عرب ایران پر جوابی حملہ کرے گا۔ تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب کو تسلی دی ہے لیکن اس کے’’معتدل‘‘ قسم کے بیان سے کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ بیان بازی سے بڑھ کر سعودی عرب کی کوئی مدد کر سکتا ہے۔ ایران نے حوصلہ پا کر ایسے ہی ایک دو حملے اور کر دیئے تو سعودیہ کا بیڑا پار سمجھئے۔ ایران سے بالواسطہ جنگ میں سعودی عرب تنہائی کا شکار ہے۔ اس کا اتحادی عرب امارات اپنی مار پر ہے۔ اس نے جنوبی یمن میں خاصا بڑا رقبہ سعودی اتحادی فوج سے چھین لیا ہے۔ اب سعودی عرب کی ریفائنریاں آدھی تباہ ہوں یا ساری، اس کی بلا سے۔ مصر نے سعودیہ سے اربوں ڈالر تو لے لیے، فوجی ایک بھی نہیں بھیجا۔ سوان کے فوجی یمن میں مصروف جنگ ہیں لیکن ان کی مہارت لڑنے میں کم، پسپا ہونے کی زیادہ ہے۔ قطر کو سعودی عرب نے دشمن بنا لیا اور ساتھ ہی ترکی کو بھی۔ اسرائیل سعودیہ کا خفیہ اتحاد ضرور ہے لیکن مدد کرنے کا امکان نہیں۔ امریکہ نے البتہ سعودیہ کو دفاع تعاون کی نئی پیش کش کی ہے۔ دوسری طرف یمن کی جنگ نے سعودی معیشت کو پیس کر رکھ دیا ہے۔ حوثیوں نے جنوبی سعودی عرب کی زندگی مفلوج کر رکھی ہے۔ جنگ میں ’’ڈیڈ لاک‘‘ ہے، سعودی عرب دو برس سے کوئی پیش قدمی نہیں کر سکا۔ دو برس پہلے اس نے اسلامی فوج بنائی تھی، وہ دھیلے کی کارکردگی بھی نہیں دکھا سکی اور دکھائے بھی کیسے، اسے مکھیاں مارنے اور شربت روح افزا پینے سے فرصت ملے تو ہی کچھ کرے، مصر میں اخوان کے قتل عام کے لیے سعودیہ نے اربوں ڈالر لٹا دیئے، ملا کیا؟ یمن کے اخوانیوں کی ہمدردی سے بھی محروم ہو گیا۔ اس کا ایک سچا دوست بھارت بھی ہے، لیکن وہ ایران کا بھی اتنا ہی سچا دوست ہے۔ سعودی عرب اب دوست کی وادی تیہ میں چالیسا کاٹ رہا ہے، ہنومان چالیسا نہیں، دوسرا! ٭٭٭٭٭ امریکی صدر ٹرمپ 28ستمبر کو افغانستان کے صدارتی الیکشن کی حمایت کر دی ہے۔ یوں طالبان کو ایک بڑا دھچکا پہنچنے میں دس گیارہ دن کا عرصہ باقی رہ گیا۔ یہ الیکشن ہو گئے تو امن مذاکرات میں طالبان کی پوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی جو ان کے زیر قبضہ علاقوں کے بتدریج سکڑنے کی وجہ سے پہلے ہی کمزور ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے۔ سال بھر پہلے طالبان کے پاس افغانستان کا 33سے 35فیصد تک رقبہ تھا، اب یہ بمشکل 30فیصد ہے۔ حال ہی میں کابل حکومت نے متعدد اضلاع طالبان سے چھین لیے ہیں۔ طالبان نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں متوازن حکومت قائم کریں گے۔ یہ ایک بے معنے کارروائی ہو گی۔ اس لیے کہ ان علاقوں پر تو پہلے ہی ان کی حکومت ہے۔ علامتی عہدوں کا اعلان تب فائدہ مند ہو گا جب کوئی اس انتظامیہ کو تسلیم کر لے اور ایسا تو کوئی امکان ہی نہیں۔ طالبان بہر حال سرتوڑ حملے کریں گے کہ یہ الیکشن سبوتاژ ہو جائیں اور کوئی شبہ نہیں کہ ان کی گوریلا حملے کرنے کی صلاحیت پہلے سے زیادہ ہو چکی ہے۔ افغان رہنما گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ طالبان کے حملوں میں ہر روز تین سو افغان فوجی مارے جا رہے ہیں۔ یہ تعداد سال بھر کی ایک لاکھ نو دس ہزار بنتی ہے اس لیے ان کا بیان بہت مبالغہ آمیز ہے لیکن یہ صحیح ہے کہ طالبان کے حملوں میں اوسطاً ہر ہفتے کئی سو افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ ان میں فوجی، پولیس اہلکار، سرکاری ملازم بھی ہوتے ہیں اور عام شہری بھی۔ ان ہلاکتوں کی قیمت طالبان کو عوامی تائید میں کمی کی صورت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ کابل حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ہے، پھر بھی وسیع عوامی حمایت رکھتی ہے۔ طالبان سے خوفزدہ شہریوں کی گنتی دن بدن بڑھ رہی ہے اور وہ ردعمل میں کابل حکومت کے حامی بن رہے ہیں۔ 28ستمبر کے الیکشن ہو گئے تو افغان صورتحال میں، پاکستان کے نکتہ نظر سے، مایوس کن تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا عالمی دن خاموشی سے گزر گیا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ’’جمہوریت‘‘ کا نام سنا سنا لگتا ہے، ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ ہوتی کیا ہے یا ہوتا کیا ہے۔ چلئے، اسے چھوڑئیے یہاں ڈینگی کا دن بلکہ دن جوش و خروش سے چل رہے ہیں، آئیں اس کا جشن منائیں۔