پہاڑ کے راستے اگر آپ مکتہ المکرمہ سے طائف جائیں تو شہر میں داخل ہونے سے پہلے ایک بہت بڑی دیوار پر عربی میں لکھا ہے مرحبا’ تراحیب المطر۔ اس کا ترجمہ ہے ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں جیسے بارش کو کہتے ہیں ایک صحرائی ملک میں کہ جہاں باران رحمت سے کھیتیاں لہلہلا اٹھتی اور مرجھائے ہوئے چہرے مسکراہٹ سے جگمگا اٹھتے ہوں وہاں بارش بہت ہی مرغوب و محبوب اور مطلوب سمجھی جاتی ہے۔ یہ 1981ء کا سال تھا۔ ریاض ایئر پورٹ پر شاہ خالد بن عبدالعزیز پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے استقبال کے لئے بہت سے شہزادوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ بار بار پاکستانی نژاد اپنے طبیب خاص ڈاکٹر فضل الرحمن سے پوچھ رہے تھے کہ ابھی تک ہمارے دوست کا طیارہ نہیں پہنچا اور جونہی جنرل صاحب کا طیارہ فضا میں نمودار ہوا تو شاہ خالد نے خوشی سے کھکھلا کر کہا۔ وصل‘وصل‘ صاحبنا وصل۔ آ گیا آ گیا ہمارا دوست آ گیا۔ آج 16فروری کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اپنے وزراء سمیت ایسی ہی بے قراری اور خوش دلی کے ساتھ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا استقبال کریں گے۔ ہمیں سعودی عرب کی وزارت تعلیم میں بیس بائیس برس سے زیادہ عرصے تک تدریسی فرائض انجام دینے کا موقع ملا اس دوران شاہی خاندان کی اہم شخصیات علمائے کرام‘ اساتذہ ‘ ینگ سعودی جنریشن‘ عام شہریوں اور صحرائوں میں بدوئوں سے بھی ملنے کے بڑے مواقع ملے۔ ایک بات ہمیں بحیثیت پاکستانی فخر کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے کہ سعودی عرب میں ہر سطح پر پاکستان کے لیے عزت و احترام اور الفت و محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔سعودی شاہی خاندان‘ بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں‘ مختلف سعودی وزارتیں اور عوام الناس پاکستانی ماہرین اور کارکنان کو بڑی بڑی مالی و انتظامی ذمہ داریاں بے دھڑک سونپ دیتے ہیں اور مقام شکر ہے کہ بالعموم پاکستانی اپنے سعودی بھائیوں کے حسن اعتماد پر پورا اترتے ہیں۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ پاکستانی نژاد سعودی ڈاکٹر فضل الرحمن شاہ خالد بن عبدالعزیز کے جبکہ ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی کنگ عبداللہ بن عبدالعزیز کے طبیب خاص تھے۔ ان دونوں حضرات سے ہمیں گاہے بگاہے معلوم ہوتا رہتا تھا کہ شاہی خاندان والے اہل پاکستان کے اخلاص اور سعودی عرب کے لئے ان کی محبت کا اپنی نجی محفلوں میں بھی تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور ان کے مخلصانہ جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دو طرفہ محبت و اخلاص کا یہ اثاثہ اب ولی عہد محمد بن سلمان کی جنریشن کو منتقل ہو گیا ہے اس لئے شہزادہ محمد اپنے ملک کے مخلص ترین دوست اور بھائی پاکستان کے لئے بڑے سچے برادرانہ جذبات رکھتے ہیں اور انہی جذبات کے اظہار کے لئے وہ پاکستان آ رہے ہیں۔ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ سمیت کئی ممالک نے پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دیں۔ دھماکوں کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر سعودی عبداللہ بن عبدالعزیز پاکستان تشریف لائے۔ یہاں لاہور میں ان کا بھر پور اور نہایت پر جوش عوامی استقبال بھی ہوا۔ اس وقت اخبار نویسوں نے ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز سے پوچھا کہ آپ نے پاکستان کی کیا مدد کی ہے اس پر شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے بڑا جامع جواب دیا۔ ہم نے پاکستان کی وہی مدد کی جو ایک بھائی دوسرے بھائی کی کرتا ہے۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اس ایک جملے میں پاک سعودی تعلقات کا خلاصہ بیان کر دیا۔جس طرح بھائیوں کے درمیان قلبی محبت کے باوجود تعلقات میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے اسی طرح گزشتہ دو تین برس سے غالباً یمن کے مسئلے پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قدرے سرد مہری کی فضا تھی۔ اس بات کا کریڈٹ بہرحال عمران خان کو جاتا ہے کہ انہوں نے دو تین ماہ قبل ریاض کی عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کر کے سعودی عرب کے ساتھ اس وقت یکجہتی کا ثبوت دیا جب امریکہ سمیت بڑے بڑے ممالک کی سرمایہ کار کمپنیاں بوجوہ کانفرنس میں شرکت سے گریزاں تھیں۔ بہرحال آج پھر پاک سعودی تعلقات میں وہی پرانی گرم جوشی بدرجہ اتم دکھائی دے رہی ہے۔ اس موقع پر ولی عہد محمد بن عبدالعزیز نے پاکستان کو تین بلین ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر کے لئے اور تین بلین ڈالر کا پٹرول موخر ادائیگی کی بنیاد پر دینے کا اعلان کیا تھا۔ 1946ء میں ایم اے ایچ اصفہانی کو مسلم لیگ کے مندوب کی حیثیت سے قائد اعظم نے یو این او بھیجا تاکہ قیام پاکستان کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا جا سکے۔ اس موقع پر کانگریس نے مسلم لیگی وفد کے راستے میں روڑے اٹکائے۔ تاہم اس وقت سعودی وفد کے سربراہ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے مسلم لیگی وفد کو والڈراف ایسٹوریا ہوٹل نیو یارک میں مدعو کیا اور یو این او میں قیام پاکستان کی بھر پور تائید کی یقین دہانی کرائی۔1954ء میں سعودی فرمانروا کنگ سعود بن عبدالعزیز پاکستان کے دورے پر آئے۔ یہاں جگہ جگہ ان کا انتہائی والہانہ استقبال ہوا۔ کراچی میں مہاجرین کی ایک بستی سعود آباد کا سنگ بنیاد بھی شاہ سعود نے رکھا۔ جب سقوط ڈھاکہ کی خبر شاہ فیصل بن عبدالعزیز تک پہنچی تو شدت غم سے ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ شاہ فیصل نے نوے ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لئے بھر پور کوشش کی۔ نیز پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان معاملات طے کرانے میں بھی اہم مفاہمتی کردار ادا کیا ہے اور 1974ء کی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی۔1979ء میں مسجد الحرام مکتہ المکرمہ کو شدت پسندوں کے قبضے سے چھڑوانے کے لئے پاکستانی کمانڈوز نے اپنا اسلامی فریضہ ادا کیا۔ 1984ء میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان فوجیوں کی تربیت کا تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔ آج سابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف 41اسلامی ممالک پر مشتمل انسداد دہشت گردی فورس کے کمانڈر انچیف ہیں۔ تیرہ چودہ لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں اور زرمبادلہ کے علاوہ نیک نامی کما رہے ہیں۔ وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ سعودی ولی عہد پاکستان میں 12بلین کی سرمایہ کاری لائیں گے۔ اور کئی ایم او یوز پر دستخط کریں گے۔ سچ پوچھیں تو ہمیں سرمایہ کاری کے بارے میں بار بار کے اعلانات کچھ زیادہ اچھے نہیں لگ رہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات کے تاریخی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک بھائی دوسرے بھائی کے گھر آ رہا ہے اس موقع پر مہمان مکرم کے لئے دیدہ دل فرش راہ کر کے ساری قوم کے جذبات یہی ہیں۔ مرحبا ‘ تراحیب المطر ہم آپ کا ایسے استقبال کر رہے ہیں جیسے بارش کا کرتے ہیں۔