پاکستان اور سعودی عرب کے دو طرفہ تعلقات کئی دہائیوں ْپرانے، گہرے اور پْرجوش ہیں جو ْاونچ نِیچ کے بہت سارے جھٹکوں کو کامیابی سے برداشت کرچکے ہیں۔ ان کے مابین دو طرفہ تعلقات اپریل 2015 سے کشیدہ ہوئے جب پاکستان نے اپنی فوجی دستے یمن بھیجنے سے انکار کردیا اور سعودی عرب اور ایران کے مابین پراکسی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ یمن اور ایران کے بارے میں پاکستان کے غیر جانبدارانہ رویے کی وجہ سعودی عرب کے ساتھ باہمی تعلقات میں سرد مہری آگئی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ، سعودی عرب نے مقبوضہ کشمیر کے ایشو (خاص طور پر) 5 اگست 2019 کی بھارتی حکومت کی کارروائی کے خلاف او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اِس مسئلے کو اجاگر کرنے میں زیادہ دلچسپی نہ دکھائی جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مقبوضہ کشمیر کے ایشو پر او آئی سی کے رویے پر تنقید نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو تاریخ کی نچلی سطح تک پہنچا دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا رواں سال مئی میں سعودی عرب کا دورہ دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے لئے تھا جو 2015 سے سرد مہری کا شکار تھے۔ منگل 27 جولائی کو سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود کا حالیہ دورہ پاکستان اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاک سعودی دوطرفہ تعلقات ایک بار پھر روایتی گرم جوشی پر مشتمل درست سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس بات کا اندازہ مذاکرات کے بعد ہونیوالی مشترکہ نیوز کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان سے ہوسکتا ہے کہ "ہمارے مابین علاقائی استحکام ، علاقائی سلامتی ، بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کو ترجیح دینے کے سلسلے میں ایک بہت ہی متفقہ نکتہ نظر ہے۔" آل سعود نے افغانستان ، کشمیر ، فلسطین ، اور یمن میں ہونے والے تنازعات کو وہ ایشوز قرار دیا جہاں باہمی اتحاد موجود ہے۔ میڈیا رپورٹس اور دونوں وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان کے مطابق ، اس دورے کی اصل توجہ سعودی پاکستان سپریم کوآرڈینیشن کونسل (ایس پی-ایس سی سی) کے کام کی تفصیلات طے کرنا تھیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ مئی کے سعودی عرب کے دورے کے دوران طے پانے والے معاہدے کے مطابق ، فریقین نے سعودی ولی عہد اور پاکستانی وزیر اعظم کی زیرصدارت ایک 'سپریم کوآرڈینیشن کونسل' قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ دونوں کے مابین قریبی تعلقات قائم ہوں۔ اور اس کونسل کا مقصد دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید وسعت دینے اور دوطرفہ تعلقات کو ادارہ جاتی بنانے کے لئے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنا جبکہ معاشی اور دیگر روابط کو بڑھانا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ کا موجودہ دورہ اس سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے ، جس کا مقصد "مئی میں وزیر اعظم عمران خان کے سعودی عرب کے اہم دورے کی پیروی کرنا ہے۔" سعودی وزیر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سپریم کوآرڈینیشن کونسل دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جائیگی ، اسے ادارہ جاتی شکل دیگی اور اس کے پیش کردہ تمام آپشنز کی تلاش کرے گی۔ پاکستان اور سعودی عرب برادرانہ مسلمان ممالک ہیں جن کے درمیان کئی دہائیوں پرانا رشتہ ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے منتخب شعبوں میں باہمی تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے اہم مواقع موجود ہیں۔ یہ ایک اچھی علامت ہے کہ دونوں ممالک کوآرڈینیشن کونسل جیسے باہمی پلیٹ فارم کے ذریعہ اپنے تعلقات کو مستقل اور ادارہ جاتی بنا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ، دونوں فریقوں نے دونوں ممالک کی وزارت خارجہ میں ایک فوکل پرسن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو باہمی محاذ پر پیشرفت کی نگرانی کریں گے۔ بظاہر اس دورے کی زیادہ تر توجہ معاشی پہلو کی طرف تھی اور اسے ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے شعبوں میں وسعت دینے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے روایتی شعبوں سے بھی آگے بڑھانا ہے۔ تاہم ، ایسا لگتا ہے کہ یہ دورہ مجموعی تعلقات کو معمول کی راہ پر ڈالنے اور افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یمن خانہ جنگی کے بارے میں سعودی نقطہ نظر،جو پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کی کشیدگی کی ایک اہم وجہ تھا ، اب بدل رہا ہے کیونکہ سعودی عرب اب یمن جنگ سے باعزت انخلا چاھتا ہے۔ اسی طرح ، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے رواں سال اعلان کیا ہے کہ سعودی مملکت تہران کے ساتھ اچھے تعلقات کی تلاش میں ہے۔ لہذا ، پاکستان کو لازمی طور پر مسلم بلاک کے اندر غیر جانبدار رہنا ہوگا اور اختلافات کم کرنے کے لیے مختلف جیو پولیٹیکل کیمپس سے وابستہ ریاستوں کے مابین پل کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ متحدہ عرب امارات کے توسط سے سعودی عرب نے پاکستان اور بھارت کے مابین بیک چینل کی حمایت کی ہے۔ فی الحال ، دونوں ممالک کی قیادت باہمی تجارت اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے ذریعے منزل کی طرف گامزن ہے۔ اس کے علاوہ ، تعلیمی وظائف اور دونوں ممالک کے مابین ثقافتی وفود کے تبادلے کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے جسکی طرف پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر زور دیا ہے۔ سعودی عرب میں بیس لاکھ سے زائد پاکستانی رہتے ہیں جو دونوں ممالک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ، اس وقت قریب 400000 پاکستانی ، جو عام طور پر رہائشی اور سعودی عرب میں کام کرتے ہیں ، پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور واپس جانے سے قاصر ہیں۔ انہیں سفری پابندیوں اور ویکسینیشن کے امور جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کو19 COVID سے متعلقہ ان پابندیوں کو کم کرنے اور طلباء سمیت پاکستانی خاندانوں کو سہولت پہنچانے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دونوں ممالک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار دوبارہ شروع کرسکیں۔