فائٹر پائلٹ کا انتقال وہاں ڈھاکہ کے ملٹری ہسپتال میں ہوا اور درد کی لہر یہاں اسلام آباد میں ، میرے وجود میں سرایت کر گئی۔ذوق نے کہا تھا : آتشِ سوز محبت تھی ، جلا کر لے گئی۔ایم ایم عالم کا معاملہ اور تھا کہ سرگودھا والوں کو اس شخص سے محبت ماں کی لوریوں میں ملتی ہے لیکن سیف الاعظم صاحب کا تو ہم جیسوں نے نام ہی نہیں سن رکھا پھر دل ومژگاں کی اس روبکار نے ہمارا گھر کیوں دیکھ لیا۔ دم گھٹتا محسوس ہوا تو پہلو کو ٹٹول کر دیکھنا چاہاکہ یہاں دل رکھا ہے یا درد۔ معلوم ہوا درد ہے مگر محض ایک پائلٹ کی موت کا نہیں ، کسی بوڑھے برگد کی جڑوں کی طرح یہ درد بہت گہرا ہے۔ دور وقتوں کی کہانیوں میں پڑھا کرتے تھے کوئی جنگجو مر گیا تو دو قبیلے آمنے سامنے آگئے کہ اس پر پہلا حق ہمارا ہے، یہ ہم میں سے تھا ، اسے ہم سے نسبت تھی۔سیف الاعظم کی موت نے وہی کہانیاں یاد کرا دیں۔ پاکستان کی فضائیہ کے سربراہ سوگوار ہیں کہ وہ جوان جاں کی بازی ہار گیا جو کبھی پاکستان ایئر فورس کا قابل فخر فرزند تھا، بنگلہ دیش کی فضائیہ سوگوار دھنیں بکھیرتی اپنے افسر کو قبر میں اتارتے رنجیدہ تھی کہ ان کا ایک قابل فخر فرزند ان سے جدا ہو گیا۔ یہ کیسے جنگجو کی موت تھی کہ پاکستان کے ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان بھی دکھی تھے اور بنگلہ دیش کے ایئر چیف مسیح الزمان سرنیابت بھی اداس تھے۔خون کے دھبے تو معلوم نہیں کتنی برساتوں کے بعد دھلیں گے لیکن یہ کیسی نسبتیں ہیں کہ ایک سا دکھ پلکوں میں اتر آتا ہے اور جب یہ پلکیں برستی ہیں تو پل بھر ہی کو سہی ، یہ دھبے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ تو یہ ایسی نسبتوں والا جنگجو کون تھا جس نے دونوں قبیلوں کو سوگوار چھوڑ دیا؟ دیکھا تو معلوم ہوا یہ ایک عجیب مانوس اجنبی تھا۔71 کا جاڑا شروع ہوا تو یہ ’’ ہم ‘‘ میں سے تھا، جاڑے نے رخصت ہوتے ہوتے اس ’’ تم‘‘ بنا دیا۔ ہم سے تم کی اس مسافت پر بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس مسافت کی یاد بھی جاڑے کی طرح بے رحم ہے ۔یخ بستگی میں آنکھوں میں اتری نمی بھی برفاب بن جاتی ہے۔مسافت کے اختتام پر ، جب اس جنگجو کا جسد خاکی اٹھا تو ہم اور تم کی تفریق مدھم ہو گئی۔مجاہد انور خان اور مسیح الزمان کا دکھ سانجھا ہے۔ کہاں راجشاہی کے ضلع پنبہ کے اس شہر فرید پور کا یہ سیف الاعظم اور کہاں پنجاب کے ضلع سرگودھا کا آصف محمود۔ تھکا دینے والی دوری کے سوا اب دونوں میں قدر مشترک ہی کیا ہے؟ موسم بھی جدا اور شناخت بھی الگ ۔لیکن ایک کے مر جانے پر دوسرے کے وجود میں سوگ کیوں اترا ہے؟ یہ کون سی نسبت عشقی ہے ، عشروں بعد بھی جو ختم ہونے میں نہیں آ رہی؟میں پیدا ہوا تو سیف الاعظم کوسابق پاکستانی ہوئے چار سال ہو چکے تھے۔ان چار سالوں میں وقت اتنا بدل چکا تھا کہ خط لکھا جائے تو حرف روٹھ جائیں ۔اور اب تو مسافت چار سالوں کی نہیں چار عشروں سے بھی طویل ہو چکی۔اتنی طوالت سے توروٹھے حروف کے معانی بھی بگڑ جاتے ہیں۔پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ ہزاروں میل دور ڈھاکہ سے خبر آتی ہے اور یہاں زخم کا ہر کوچہ بازار ہو جاتا ہے؟ جنگجو کے مرنے پر پتا چلا ، اتنی مسافت کے باوجود یہ تو ’’ گرائیں‘‘ تھا۔سرگودہا پی ایف کالج سے پڑھا اور پھر پی ایف میں چلا گیا۔ جنگجو کا جنازہ اٹھا تو معلوم ہوا 1965 کی جنگ میں اس نے میرے شہر سرگودھا کا دفاع کیا تھا ۔جنگجو نے مٹی اوڑھ لی تو خبر ہوئی ایم ایم عالم کی طرح اسے بھی پاکستان نے ستارہ جرات عطا کیا تھا۔ سیف الاعظم وہ جنگجو تھا جس کے پاس اسرائیل کے سب سے زیادہ جنگی جہاز تباہ کرنے کا اعزاز تھا۔جس وقت اس نے یہ کارنامہ انجام دیا اس وقت وہ پاکستان ایئر فورس کا جنگجو تھا۔ ہر وقت پاکستان پر انگلی اٹھانے والے ملامتی پیشہ ور کیا کبھی اس سوال پر غور کریں گے کہ کیا وجہ ہے اسرائیل کے جہاز تباہ کرنے والے پائلٹس کا جب بھی ذکر آتا ہے خوشبو پاکستان ایئر فورس کا رخ کیوں کر لیتی ہے؟ ایم ایم عالم رخصت ہوتے ہیں تو مسجد اقصی میں دعا کیوں ہوتی ہے؟ مڈل کوٹ جب ایک مشن سے واپس نہیں لوٹتے تو اردن کا بادشاہ یہ درخواست کیوں کرتا ہے کہ مڈل کوٹ کا جسد خاکی مل جائے تو انہیں اردن کے قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جائے ؟ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی جہاز گرانے والا ستار علوی کون تھا؟ سکوادڑن لیڈر عارف منظور کون تھا؟شام اور اردن کی حکومتوں نے پاکستانی پائلٹس کو اپنے اعلی ایوارڈ کیوں دیے؟ عاشقی میں دوش اور فردا کی گتھیاں سلجھیں تو کچھ معلوم ہو ؟ سیف الاعظم کی موت ایک ایسے جنگجو کی موت ہے جو ایک سے زیادہ قبیلوں کی آنکھ کا تارا ہو۔ڈھاکہ اداس ہے کہ مرحوم اس کا بہادر فرزند تھا۔ اسلام آباد اداس ہے کہ مرحوم سے ایک نسبت اسے بھی تھی۔الجزیرہ کی خبر میں عجب سی ایک حیرت پنہاں ہے: پاکستان ایک بنگلہ دیشی پائلٹ کے مرنے پر سوگوار ہے۔فلسطین میں سوگ ہے کہ اقصی کا محافظ چل بسا اور اردن اور عراق تعزیت کر رہے ہیں کہ ہمارا بازوئے شمشیر زن نہ رہا۔ فلسطینیوں کے ٹوئٹر پر سوگ کا سماں ہے۔یہ ایک بلند بخت کی موت کا نوحہ ہے جو ڈھاکہ سے اسلام آباد تک اور عمان سے یروشلم تک ، سانجھے دکھ کے ساتھ بلند ہو رہا ہے۔ دم گھٹ رہا ہے اور ضبط کے باجود پلکوں میں برسات امڈ آئی ہے۔اس برسات کے ساتھ ایک ہی سوال ہے: کیا ہم نے اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے؟ یہ سوال ٹپک کر میرے ہاتھ پر آ گرا ہے اور ہاتھ خالی ہیں۔