وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی سفارتکار کی گاڑی اورمقامی خاندان کی کار میں تصادم سے دو افراد جاں بحق اور ایک ہی خاندان کے 4 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ امریکی سفارت خانے کی گاڑیوں کے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے سبب انسانی جانوں کے ضیاع کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ 2018ء میں بھی وفاقی دارالحکومت میں امریکی ملٹری اتاشی کی ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار عتیق نامی نوجوان ہلاک ہو گیا تھا۔ اسی طرح 2011ء میں ایک امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں دو افراد کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ویانا کنونشن کے تحت کسی بھی ملک کے سفارتکار کو نہ صرف ملکی بلکہ نجی معاملات میں مکمل استثنیٰ حاصل ہوتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ویانا کنونشن میں ایک قونصلر تعلقات اور دوسرا سفارتی تعلقات کا کنونشن ہے ۔پاکستان نے ان دونوں کنونشنوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے 1961ء میں لاء آف لینڈ بنایا تھا لیکن اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں کیونکہ اس کے تحت مقامی قوانین کا اطلاق کرنے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے سفارتکار ملکی قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے۔ گزشتہ روزکے حادثے کی وجہ بھی قانونی سقم اور سفارتکاروں کی لاپرواہی تھی۔ بہتر ہو گا حکومت 1961ء کے لاء آف لینڈ پر ضروری قانونی سازی کرے اور تمام سفارتکاروں کو پاکستانی قوانین کے احترام کا پابند بنائے تاکہ ٹریفک سگنلز پر ایسی قانون شکنی کے باعث انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔