دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جب تک داخلی صورتحال پر توجہ نہ دی جائے خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ غیر مستحکم داخلی صورت حال پاکستان کے منفی تشخص کی وجہ بنی۔ سفرا کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب میں وزیر خارجہ نے پاکستان کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم 16مرتبہ آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دے چکے ہیں۔ ہم جب بھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں وہ نئی شرائط رکھ دیتے ہیں جنہیں پاکستان کا عام شہری برداشت نہیں کر پاتا۔ سفرا کانفرنس کا مقصد پاکستانی سفیروں کو نئی حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کرنا اور پاکستان کی مشکلات کا بیرونی ذرائع سے حل تلاش کرنا تھا۔ اس کانفرنس میں سفیر حضرات کو کہا گیا ہے کہ وہ برآمدات میں اضافے کے لئے پاکستانی مصنوعات کو نئی منڈیوں میں متعارف کرانے کا بندوبست کریں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی برآمدات 21.9ارب ڈالر کی رہیں۔ پوری دنیا میں دو سال پہلے 15.952کھرب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ اس اعتبار سے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پہلے سات ممالک میں شمارہونے والے پاکستان کی برآمدات عالمی تجارت کا محض 0.1فیصد بنتا ہے۔ پاکستان کی 37.2فیصد برآمدات ایشیائی ممالک کے لئے ہیں جبکہ 35.4فیصد یورپ میں جاتی ہیں۔ افریقہ کو 6.6فیصد اور لاطینی امریکہ و میکسیکو کا حصہ 1.4فیصد ہے۔ امریکہ کا ہماری برآمدات میں حصہ 16.3فیصد ہے۔ دوست ممالک سعودی عرب اور چین کے ساتھ تجارتی توازن ہمارے حق میں نہیں۔ پاکستان کے پاس سفارتی عملے کی شکل میں سینکڑوں اہلکار بیرون ملک تعینات ہیں۔ ان میں کئی طرح کے دیگر اتاشیوں کے ساتھ ساتھ کامرس اینڈ ٹریڈ اتاشی بھی موجود ہیں۔ یہ لوگ دوسرے ملک میں جا کر ذاتی کاروبار یا کچھ اہم حکومتی شخصیات کے کاروباری معاملات کی دیکھ بھال کرتے رہے ہیں۔ ملک کی تجارتی ترقی اور مصنوعات کے لئے نئی منڈیوں کی تلاش کا عمل گزشتہ کئی عشروں سے منجمد ہے۔ یہ لوگ کیوں غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے اور ان کی کارکردگی کیا رہی اس کا جائزہ بھی ضرور لیا جانا چاہیے۔ یقینا داخلی طور پر پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بڑھتی ہوئی کرپشن کے باعث استحکام حاصل نہیں کر پایا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیرستان کے پہاڑوں لے کر کراچی شہر کی گنجان آبادیوں تک میں پھیلے دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے موثر کارروائیاں کی ہیں۔ متعدد فوجی آپریشنوں اور سویلین نگرانی کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس سے شہری خوف کی فضا سے نکلے ہیںاور اب ملک میں سیاسی استحکام کے آرزو مند ہیں۔ دوسری طرف کرپشن کے خلاف ملک گیر کارروائیاں جاری ہیں۔ نئی حکومت سیاسی طور پر غیر مقبول ہونے کے ڈر میں مبتلا نہیں۔ یہ بے خوفی کرپشن کے خاتمہ کی مہم میں خاصی مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ طاقتور سیاستدان‘ بارسوخ بینکار اور انتہائی کایاں سرکاری افسران کے گرد قانون نافذ کرنیوالے ادارے گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ عوامی سطح پر اس عمل پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے احتساب کے عمل کو جو لوگ سیاسی انتقام کا نام دے رہے ہیں ان کی آواز پر کوئی کان نہیں دھر رہا۔ عوام نے تحریک انصاف کو جو مینڈیٹ دیا اس میں یہ مطالبہ شامل تھا کہ وہ برسر اقتدار آ کر ملک لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے متعلق جے آئی ٹی نے حال ہی میں جو رپورٹ پیش کی ہے وہ بتاتی ہے کہ ملک کے طاقتور طبقات کس طرح قومی وسائل کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے۔ پاکستان نے جس طرح دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا دنیا اس کی معترف ہے۔ امریکہ اور برطانیہ تسلیم کرتے ہیں کہ اتحادی ممالک افغانستان میں اس لئے ناکام رہے کہ انہوں نے پاکستان کی صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ روس چین اور وسط ایشیائی ممالک مانتے ہیں کہ پاکستان نے ناصرف داخلی سکیورٹی کی صورت حال بہتر بنائی بلکہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمہ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے خلاف حالیہ مہم کے ضمن میں بھی عالمی برادری کا ردعمل بہت مثبت رہا ہے۔ ان دونوں حوالوں سے کامیابی نے پاکستان کو ایک گنجائش عطا کی ہے۔ اس سے دنیا کو ان سوالوں کا جواب مل گیا ہے جو وہ پاکستان دشمن قوتوں کے جھانسے میں آ کر اٹھاتی رہی ہے۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ پاکستان کے عوام ہر خطرے اور برائی کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے بہادر عوام نے برے حکمرانوں اور دہشت گردوں کا بیک وقت سامنا کیا ہے۔ اس جنگ میں فتح کے بعد دنیا کو پاکستان کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات استوار کرتے ہوئے پاکستان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے وزارت خارجہ کے لئے 18رکنی مشاورتی کونسل کی منظوری دیدی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس مشاورتی کونسل کے چیئرمین ہوں گے جبکہ خارجہ پالیسی کی ماہر دس شخصیات کو اس کا رکن بنایا گیا ہے۔ وزیرقانون اور وزیر خزانہ کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مثبت بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے خارجہ امور کو درست سمت دی ہے۔ پاکستان میں معاشی تبدیلی کا بہت اہم ذریعہ سی پیک اور گوادر ہیں۔ دوسرے ملکوں سے تعلقات میں اگر معاشی اور تجارتی ترجیحات کو اہمیت ملتی ہے تو اس کا فائدہ پاکستان کے عوام کو پہنچے گا۔ دنیا ہماری کامیابیوں کے بعد جاننا چاہتی ہے کہ ہم خود کو پھر سے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وزارت خارجہ کو اپنے سفارتی عملے کی صلاحیت بڑھانے اور سفیر حضرات کو فعال اور مستعد بنانے کے لئے ضرور اقدامات کرنا چاہئیں تاکہ تاریخ نے ہمیں جو موقع دیا ہے وہ ضائع نہ چلا جائے۔