وزیر اعظم عمران خان نے اپنے مختصر لیکن دو وٹوک خطاب میں بھارت کے خوب لتے لئے۔ان کا سب سے معنی خیز فقرہ وہ ہے کہ جنگ شروع تو ہماری مرضی سے ہوگی لیکن یہ کہاں تک جائے گی یہ اللہ جانتا ہے۔دونوں ممالک جوہری طاقت ہیں۔اس پس منظر میں اس فقرے کی گہرائی کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔بات لیکن یہ ہے کہ بھارت دائیں ہاتھ کا داو دکھا کر بائیں ہاتھ پہ وار کرنے کا عادی ہے اور وہ ایسا کررہا ہے۔ پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پہ لگا کر اس نے ساری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی ناکام و ناپاک کوشش ضرور کی ہے ، اپنے ملک میں روایتی جنگی جنون کو ہوا بھی دی ہے جسے ہمیشہ بس ایک تیلی دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ درحقیقت کرکیا رہا ہے اس کی جھلک صرف مقبوضہ کشمیر میں نظر آرہی ہے۔مسلسل کریک ڈائون،شہادتیں،ظلم و استبداد اور کسی مالیخولیائی کیفیت میں مبتلا بھارتی فوج کا کشمیری نوجوانوں پہ ٹوٹ پڑنا۔کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی اصل مقصد ہے جو کامیابی سے پورا کیا جارہا ہے۔ہزاروں کشمیری مساجد میں پناہ لینے پہ مجبور ہوگئے ہیں۔ہتھیار بند نوجوانوں کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کا حکم ہے اگرچہ یہ غیر اعلانیہ حکم ہمیشہ ہی وادی میں عمل پذیر رہا ہے لیکن اس بار کشمیری ماوں کو وارننگ دی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں سے ہتھیار رکھوا لیں ورنہ وہ مار ے جائیں گے۔ ادھر بھارت میں کشمیریوں کی عزت اور جان و مال غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔کشمیری مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا چکا ہے۔یہ تمام حالات کشمیر کی معاشی ناکہ بندی اور اسے چاروں طرف سے گھیر کر قتل عام کی منصوبہ بندی کی نشاندہی کررہے ہیں۔یہاں مجھے فلسطین یاد آرہا ہے اور وہ کبھی بھولتا بھی نہیں۔پاکستان کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ اس ملک کی بنیاد میں اقبال کی خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ والی مسدس رکھی ہوئی ہے ۔کشمیر تو کبھی ہماری شہہ رگ تھا۔ فلسطین سے ہمارا ملی اور مذہبی رشتہ ہے۔کشمیر میں بعینہ وہی صورتحال ہے جو فلسطین میں اسرائیل نے برپا کر رکھی ہے۔یہ ایک اتفاق نہیں ہے کہ فلسطین اور کشمیر میں ایک ساتھ ظلم و بربریت میں اضافہ ہوا ہے۔آپ پچھلے ایک سال کا اخبار اٹھائیں اور دونوں علاقوں کی ٹائم لائن چیک کریں۔ادھر فلسطین میںامریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر اس فساد کی ابتدا کی گئی جو طے شدہ تھا۔اس کے ساتھ ہی فلسطینیوں پہ استبداد کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔اسی دوران کشمیر میں برہان الدین وانی کے خون سے ایک نئی تحریک کی ابتدا ہوئی اور کشمیریوں پہ جبر کے نئے در کھول دئے گئے۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے وزیر اعظم کے موقف کی تائید کرنے کو تیار ہوں کہ پاکستان پلوامہ ہی نہیں کشمیر کے کسی بھی واقعہ میں ملوث نہیں ہے۔عمران خان نے اگر بھارت سے ثبوت مانگے ہیں تو اس کی بنیاد یہی اعتماد ہے کہ بھارت کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔پاکستان کشمیر کی محض اخلاقی اور سفارتی حمایت تک ایک عرصے سے محدود ہے۔پچھلی حکومت کے دور میں اس میں بھی آنا کانی ہونے لگی تھی۔البتہ موجودہ حکومت نے امسال یوم کشمیر ایسے منایا کہ بھارت کو لینے کے دینے پڑگئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک ہفتہ قبل لندن جا پہنچے جو اس سارے قضیئے کا اصل ذمہ دار ہے اور وہاں کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے متعلق بہترین مہم چلائی۔ پاکستانی میڈیا جس پہ گذشتہ پانچ سالوں سے برف پڑی ہوئی تھی اچانک جھرجھری لے کر جاگ اٹھا اور سارا دن کشمیر سے متعلق پروگرام نشر ہوتے رہے۔پلوامہ حملہ اس مہم کا جواب ہے۔اس سے قبل کشمیر میں بھارتی دہشت گردی پہ گزشتہ حکومت پراسرار خاموشی میںمبتلا نظر آتی تھی۔ عمران خان نے بلاشبہ کشمیر کو ایک بار پھر سلگتا ہوا موضوع بنا دیا۔ بس ایک سلگتا ہوا موضوع۔ یوں ہم کم سے کم اس مقام پہ واپس آگئے جہاں سے جدا ہوئے تھے۔اس مقام تک پہنچنے کی گواہ کسی حد تک میں بھی ہوں۔ سولہ سال قبل میرے والد اچانک ہی دنیا چھوڑ گئے۔وہ جہاد کشمیر اور فلسطین کے ڈونر تھے۔ تب یہ جہاد کہلاتا تھا اور پربا بھی تھا۔ والد کے انتقال پہ ہمارے گھر مقبوضہ کشمیر سے فرشتوں کی جماعت اتری۔ظہرانہ تناول کیا۔والد کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعا کی اور جس خاموشی سے آئے تھے اسی خاموشی سے واپس نامعلوم منزلوں کو روانہ ہوگئے۔انہیںکسی کا خوف نہ تھا۔اس کے صرف پانچ سال بعد آزاد کشمیر کے ایک سرحدی گائوں میں جو ایل او سی سے بالکل ملحق تھا، ایک واقف کار کے گھر قیام کا موقع ملا۔ مجھے علم تھا کہ ہمارا میزبان کن منزلوں سے گزر کے آتا رہا ہے۔ اس کا وسیع و عریض گھر اور اس کے ایک درجن سے زائد کمرے ہر وقت سرحد پار سے آنے اور جانے والوں کے لئے تیار رہا کرتے تھے۔قیام،طعام اور دیگر بندوبست۔اس بار سناٹا نظر آیا۔ نہ کوئی آیا نہ گیا۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ اب یہ سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ کوئی سرپرست ہی نہ رہا۔ مذہبی جماعتوں نے ـ"بھی "ہاتھ اٹھا لیا۔کہیں سے فنڈ نہیں آرہے۔بچے اپنے طور پہ آتے ہیں تو واپس بھیج دیے جاتے ہیں۔جہاد ماضی کا قصہ ہوا۔یہ صرف پانچ سال میں ہوا۔اس کے بہت عرصہ بعد حال ہی میں میرے پاس سری نگر سے مہمان آئی۔من موہنی نازک سی لڑکی۔میرا دل کشمیر کے لئے بے چین ہوا۔ میں نے اس سے حالات دریافت کئے۔ اس بار تیور ہی کچھ اور تھے۔ اس نے کہا اب جدو جہد آزادی ہم کشمیری نوجوانوں نے سنبھال لی ہے۔اب باہر سے کوئی نہیں آئے گا۔ہم نے اپنی جنگ خود لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔وہ واپس چلی گئی۔تب برہان وانی زندہ تھا اور کشمیری نوجوانوں کا ہیرو تھا۔اس کے چھ ماہ بعدوہ شہید ہوگیا۔وانی کے خون نے کشمیری زعفران احمریں تر کردئیے۔ صرف پندرہ سال میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ہم سے ان تک۔کلاشنکوف سے پتھروں تک۔غزہ سے سری نگر تک۔ایک ہی کہانی ہے۔ بھارت کو علم ہے کہ پاکستان کشمیر میں ملوث نہیں ہے ۔ اس کی پاکستان پہ چڑھائی محض روایتی بدفطرتی کا اظہار اور پلوامہ کی آڑ میں پاکستان کو عالمی محاذ پہ تنہا کرنے کی مذموم کوشش ہے جس میں وہ ناکام رہا ہے کیونکہ عین اسی دوران سعودی ولی عہد پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کررہے تھے۔ سعودی عرب نے دونوں ملکوں سے بالترتیب بائیس اور چوالیس ارب ڈالر کے معاہدے کرلئے ہیں۔دونوں ملکوںمیں اس کی آئل ریفائنری لگی ہوئی ہے۔ہم آپس میں جنگ کریں گے تو ان کی سرمایہ کاری کا کیا ہوگا؟اسی لئے ہمارے معزز مہمان پاکستان سے براہ راست بھارت نہیں گئے۔کشمیر پہ ان کا موقف وہی ہے جو فلسطین پہ ہے۔وہی اقوام متحدہ کی قراردادیں جو ستر سال سے کشمیر اور فلسطین کے نوجوانوں کے خون پہ سرخ فیتے باندھتی آئی ہیں۔فلسطین کو عرب دنیا بہت پہلے فراموش کرچکی ہے۔ اب ہم بھی عربوں کی طرح کشمیر کی سفارتی حمایت کرتے رہیں گے۔غزہ میں بچے اسرائیلی بندوقوں سے بھونے جاتے رہیں گے۔کشمیری زعفران کے سرخ ریشے کشمیری نوجوانوں کے لہو سے احمریں تر ہوتے رہیں گے۔