اللہ رحم فرمائے ،یہ رُت کچھ ایسی سفاک اور لہورنگ ہے کہ اب تو وحشت ہونے لگی ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے چہار سو رخصت ہونے کا موسم چھایا ہے۔ کہیں نہ کہیں سے کوئی پریشان کن خبر سننے کو مل جاتی ہے۔ جاننے والوں میں سے کئی بیمار ہوئے، الحمدللہ کہ وہ شفایاب ہوئے، مگر سخت تکلیف بھگتنا پڑی ۔ ہمارے اداریہ نویس اور ادارتی سیکشن کے سربراہ اشرف شریف کورونا کا شکار ہوئے، پچھلے تین ہفتے انہیں سخت تکلیف بھگتنا پڑی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ خطرے سے نکل آئے، صحت یاب ہوگئے۔ یہ وائرس مگر اچھے بھلے آدمی کو توڑ کر رکھ دیتا ہے، کمزوری کی وجہ سے وہ ابھی دفتر نہیں آ سکے۔ اشرف شریف نوجوانی میں باڈی بلڈر رہے، تن سازی کے مقابلے جیتے، ان کے مضبوط کسرتی جسم میں اس کے آثارجھلکتے ہیں، وائرس نے مگر انہیں بڑی پریشانی سے دوچار کیا۔ اللہ انہیں آسانی عطا فرمائے۔ سرائیکی میں ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ’’ بلا ہائی، برکت کیناں ہائی(مصیبت تو آئی، مگر بچت ہوگئی)۔‘‘ پچھلے چند ہفتوں میں بہت سی افسوسناک خبریں سننا پڑیں۔ آئے روز کسی نہ کسی کی تعزیتی پوسٹ نظر آ جاتی ہے۔ادیب، مترجم اور دنیا زاد جیسے جریدے کے مدیرڈاکٹر آصف فرخی بھی اچانک چلے گئے۔ان کاویڈیو بلاگ’’ وبا کے دنوں کا روزنامچہ ‘‘باقاعدگی سے دیکھ رہا تھا۔ کمزور لگ رہے تھے ، مگر توقع نہیں تھی کہ یوں چلے جائیں گے۔ نجی زندگی کے ایک افسوسناک واقعے نے ان کا دل توڑ دیا تھا، لگتا ہے جینے کی تمنا ہی ختم ہوگئی۔دو تین دن پہلے نامور محقق ڈاکٹر مظہر شیرانی انتقال کر گئے۔وہ شاعر رومانویات اختر شیرانی کے صاحبزادے تھے۔ چند دن پہلے ماضی کی سپرسٹار اداکارہ صبیحہ خانم کے جانے کی خبر آ گئی۔ وہ طویل عرصے سے امریکہ میںمقیم تھیں، گوشہ نشینی کی وجہ سے ان کی کوئی خبر نہیں آ تی رہی۔سنتوش کمار کے ساتھ ان کی فلمی جوڑی بھی مشہور ہوئی،حقیقی زندگی میں بھی وہ میاں بیوی تھے۔ کہتے ہیں سنتوش پاکستانی فلم انڈسٹری کے سب سے وجیہہ اداکار تھے۔ ان کے بھائی درپن بھی مشہور ہیرو رہے۔ درپن کی اہلیہ نیئر سلطانہ کو بڑھاپے میں دیکھا۔ ایسا منور چہرہ کہ آدمی احترام سے دیکھتا چلا جائے۔میڈم صبیحہ خانم نے بھی بڑی پروقار زندگی گزاری ۔ انڈسٹری چھوڑی تو پھر مڑ کر نہ دیکھا۔وہ بہت عمدہ اداکارہ تھیں۔ پی ٹی وی کسی زمانے میں پرانی فلمیں دکھایا کرتا، ان کی بعض فلمیں دیکھنے کو ملیں۔صبیحہ خانم کی رحلت کی خبر آئی تو اسی روز بھارت کے مقبول اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کی خبر بھی آگئی۔ سوشانت نوجوان نسل کے ہیرو تھے، چند سال پہلے انہوں نے عامر خان کی مشہور فلم PKمیں کام کیا تھا۔ ان کاکردار ایک پاکستانی نوجوان سرفراز کا تھا ، جس نے محبت میں کمال درجے کی وفا نبھائی۔ بہت کم بھارتی فلموں میں پاکستانی کردار کو مثبت دکھایا جاتا ہے، پی کے میں مگر ایسا ہوا۔ اس کا ایک مکالمہ مشہور ہوا،سرفراز کبھی دھوکا نہیں دے گا۔ کرکٹر سرفراز احمد جب کپتان بنے تو یہ فقرہ ان کے حوالے سے اکثر استعمال کیا جاتار ہا۔ یہ اور بات کہ بطور بلے باز ہمارا سرفراز اکثر دھوکا دے جاتا، اسی لئے ٹیم سے باہر بھی ہوئے، اب پھر چانس مل گیا۔ سوشانت سنگھ راجپوت کی پاکستان میں مقبولیت کی ایک وجہ سرفراز کا وہ فلمی کردار بھی ہے۔ نوجوان موت ویسے ہی افسوسناک ہوتی ہے۔ سوشانت سنگھ ہنستے مسکراتے چہرے والا ہیرو تھا، بظاہر بڑا کامیاب، دولتمند ، ہزاروں لاکھوں دلوں کی دھڑکن، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یکایک وہ یوں پھندے سے جھول جائے گا۔ بھارت میں تو اس پر سوشل میڈیا میں طوفان آ گیا ۔ بعض سپرسٹارز اور فلم بنانے والے بڑے گروپوں کے خلاف دھواں دھار مہم چل رہی ہے۔ لوگ ایسے اداکاروں کی تصاویر لگا رہے ہیں جو سیلف میڈ ہیں اور اپنے ٹیلنٹ سے اوپر آئے، عرفان خان، منوج واجپائی، ایوشمان کھرانہ، پنکج ترپاٹھی، نواز الدین صدیقی،کنگنا رناوت، سوشانت راجپوت وغیرہ ۔ اس کے مقابلے میں ان سٹارکڈز کی تصاویر حقارت سے پیش کی جاتی ہے ، بڑے فنکاروں کی اولاد ہونے کے ناتے جنہیں کوئی دقت نہیں ہوئی ، ورن دھون، عالیہ بھٹ، سوناکشی سنہا، سونم کپور، شردھا کپور، ٹائیگر شیروف ، ارجن کپور، رنبیر کپور وغیرہ۔ کنگنا رناوت میں ایک خاص قسم کا سنکی پن ہے اور عجب انداز کی دلیری بھی۔ کرن جوہر مشہورفلم پروڈیوسر ہیں، جن کے بینر تلے کئی فلمیں بیک وقت بنتی رہتی ہیں، کوئی انہیں ناراض کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ کنگنا رناوت نے پچھلے سال کرن جوہر پر اقرباپروری کا الزام عائد کر دیا تھا۔ اب سوشانت کی خودکشی کے بعد کنگنا کی ایک اور شعلہ بار ویڈیو آئی ہے، اس نے کھل کر سب کو کھری کھری سنائی ہیں۔ خبریں آ رہی ہیں کہ سوشانت سنگھ کو کامیاب اداکار ہونے کے باوجود کرن جوہر، سلمان خان، ادیتا چوپڑا اور بعض دیگر بڑے اداروں نے اپنی فلموں سے کٹ کر دیا تھا۔ سوشانت غالباً پہلے ہی سے ڈپریشن کا شکار تھے، مسلسل مایوس کن خبروں سے ہمت ہار بیٹھے۔ ایک اور ڈائریکٹر جس نے مشہوربھارتی فلم دبنگ کی ڈائریکشن دی تھی، اس نے فیس بک پوسٹ میں سلمان خان ، ان کے والد اور بھائیوں ارباز خان، سہیل خان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ انہیں تباہ کرنا چاہتے ہیں، فلموں سے نکلوا دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بالی وڈ کی بظاہر دمکتی، جگمگاتی زندگی کے تاریک گوشے سامنے آ رہے ہیں۔ ادھرہمارے سوشل میڈیا میں ایک بحث چل نکلی کہ سوشانت سنگھ چونکہ غیر مسلم تھے، اس لئے ان کے لئے دعا نہیں کرنی چاہیے۔ انگریزی میں عام رواج ہے کہ مرحوم کے لئے RIP(Rest in Peace) لکھ دیا جاتا ہے، سوشانت سنگھ پر پوسٹ کرتے ہوئے بھی کچھ لوگوں نے ایسا لکھ ڈالا۔ اس پر شور مچا۔شرعی پوزیشن اور دینی حوالے دئیے جانے لگے۔ پھر کسی دانا نے سمجھایا کہ بھائیو RIP کوئی مغفرت کی دعا نہیں ہے، یہ تو یوں سمجھیں کہ اگلے مرحلے پر جانے والے کے لئے گڈ لک کا اظہار ہے اور یہ رسمی طریقہ ہے، اس میں فقہی باریکیاں نہ نکالی جائیں۔ کسی نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ میڈم صبیحہ خانم کے لئے کم لوگوں نے لکھا جبکہ بھارتی غیر مسلم اداکار کے لئے لوگ زیادہ دکھی ہوئے۔ گویا کہ دکھی ہونے سے پہلے بھی حساب کتاب کرنا چاہیے کہ بندہ پاکستانی ہے یا انڈین، امریکی ہے یا فرانسیسی۔ کامن سینس کی بات ہے کہ میڈم صبیحہ کی آخری فلم تیس چالیس سال پہلے آئی ہوگی، خود ہماری نسل کے لوگوں نے بھی انہیں سینما میں نہیں دیکھا۔ تیس برسوں سے وہ اخبار کی ایک سطری خبر کا موضوع بھی نہیں بنیں ۔ سوشانت آج کل کا ہیرو ہے، جس کی فلمیں یہاں لاکھوں نے دیکھیں۔ ہماری، ہمارے فوراً بعد اور ہم سے پہلے والی نسل کے لئے طارق عزیز کا جانا ذاتی صدمہ ہے۔ ہم لوگ بچپن ہی سے ان کی گرجدار خوبصورت آواز سنتے بڑے ہوئے۔ نیلام گھر ہماری بہترین یاداشتوں کا حصہ ہے۔ ان کا شعری ذوق کمال تھا، الفاظ کی ادائیگی مثالی اور انہوں نے دو تین نسلوں کی باقاعدی تربیت کی۔ پاکستانیت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ جس طرح طارق عزیز پروگرام کے اختتام پر پاکستان پائندہ باد کا نعرہ لگاتے ، وہ دیدنی ہوتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ان کی ایک سہیلی کو پی ٹی وی کا ایم ڈی لگایا گیا، انہوں نے کسی فضول سی وجہ پر یا محض اپنی انا کی تسکین کے لئے نیلام گھر بند کر دیا۔ طارق عزیز کو اس کا بڑا صدمہ پہنچا کیونکہ ان کا پروگرام مسلسل براڈ کاسٹ ہونے کا عالمی ریکارڈ بنانے والا تھا۔کچھ عرصہ وہ فارغ رہے، پھر ایک اخبار میں کالم لکھنا شروع کر دیا۔طارق عزیز نے بڑے عمدہ کالم لکھے۔ ہم جیسے طالب علم بڑی دلچسپی سے ان کی تحریرپڑھتے تھے۔ بعد میں وہ عملی سیاست میں چلے گئے اور 97ء کا الیکشن لڑ کر ایم این اے بن گئے۔ انہوں نے عمران خان کو خاصے مارجن سے شکست دی۔ وہ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی رہے تھے، بعد میں اسی بھٹو سے وہ مایوس بھی ہوگئے۔ طویل عرصہ سیاست سے لاتعلق رہے ۔مسلم لیگ ن نے ٹکٹ کی پیش کش کی توالیکشن لڑا۔ یہ ان کی غلطی تھی۔ وہ ذہنی طور پر مسلم لیگی قیادت کے ہم خیال نہیں تھے، پارٹی نے فائدہ بھی نہیں اٹھایا۔ ان سے بدرجہ کم اہلیت کے لوگ وزیر بنائے گئے، طارق عزیز کو نظرانداز کیاگیا۔ بعد میں سپریم کورٹ حملہ کیس میں ان پر پابندی لگی۔ طارق عزیز اس الزام کی ہمیشہ تردید کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ جذباتی لیگی کارکنوں کو روک رہے تھے ۔ عدالتی فیصلہ کے بعد ان کی عملی سیاست ختم ہوگئی۔ اپناپروگرام انہوںنے دوبارہ شروع کیا تھا، مگر اب زمانہ بدل چکا تھا۔ طارق عزیز پرانے دور کے سپرسٹار تھے، نئے زمانے کے بگڑے ہوئے طور طریقوںمیں وہ مس فٹ تھے۔وہ سطحی، عامیانہ حرکتیں کر سکتے تھے نہ ہی مہمانوں کی تضحیک کرنے کے ’’ہنر‘‘سے مالامال تھے۔تھوڑا بہت دال دلیہ کرتے رہے، مگر اب ان کا زمانہ نہیں رہا تھا۔ آخری دنوںمیں زیادہ تر گھر ہی رہتے۔ بیماری کے اس موسم میں لوگ اپنا مرض بھی چھپاتے ہیں، معلوم نہیں ہمارے طارق عزیز اسی منحوس وائرس کا شکار ہوئے یا پھر دل کامرض ان کی جان لے گیا۔ ان کا عہد تمام ہوا۔ رخصتی کے اس موسم میں ہمیں ان کے جانے کی خبر بھی سہناپڑی۔ اللہ رحم فرمائے اور اس سفاک رُت کو بدل ڈالے، آمین۔