اردو زبان کے دانشور شاعر ن م راشد نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے: ’’یہ منفی زیادہ ہیں انسان کم‘‘ آج میں ان لوگوں کے بارے سوچنے بیٹھا تو میرے ذہن میں وہ سیاستدان گھر آئے جو بظاہر عوامی باتیں کرتے ہیں۔ جو جمہوریت کے عشق میں دیوانے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اب تو اس قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کو ’’مرض اقتدار‘‘ لاحق ہے۔ وہ بہت بڑا خطرناک مرض ہوتا یہ۔ تخت پر بیٹھنے کے لیے یہ لوگ کبھی تختے کی زینت بھی بن جاتے ہیں اور پھر ان اقتدار پرستوں کو بت بنا کرپوجا جاتا ہے۔ ہماری سیاست گندی گلی جیسی کیوں ہے؟ اس گلی سے ہمیشہ بدبو ہی کیوں آتی ہے۔ کیا ہمارا حق نہیں۔ اس دیس کے بدقسمت عوام کا حق نہیں کہ اس گلی سے کبھی بہار کے کسی بھولے بھٹکے آوارہ سے جھونکے کا گذر ہوہماری سیاست اگر تھوڑی بھی مثبت ہو جائے تو اقبال کا یہ شعر حقیقت میں ڈھل جائے: ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ سندھ کے ایک عظیم شاعر ایک مفکر نے لکھا ہے کہ ’’اس کی ایک آنکھ میں شرم تھی۔ وہ آنکھ جو پتھر کی تھی‘‘ کیا ملک کی اقتداری سیاست کے بارے میں اس سے زیادہ گہرا اور جامع تبصرہ ہو سکتا ہے؟ اگر ہمارے ملک میں سیاست کے بارے میں آرٹ کا بھرپور استعمال ہو تو ہم ایک تصویر ایسی بھی دیکھ سکتے جس میں سیاستدان عوام کو سیڑھیاں بنا کر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ سیاستدان اپنے خاندان کی قبروں پر کھڑے ہوکر اقتداری تخت کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر ان کے لیے پارٹی کے لوگ اور عام عوام کیا معنی رکھتے ہیں؟ اس ملک کے باشعور اور باعوام اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کورونا کی جاری دوسری لہر بہت خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ یہ لہر پہلی لہر سے زیادہ جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق یہ وہ وائرس ہے جو روایتی ٹیسٹ میں بھی ظاہر نہیں ہوتا۔جس طرح ہمارے پاس جیلیں کم اور مجرم زیادہ ہیں، اسی طرہ ہمارے پاس مریض زیادہ اور ہسپتال تھوڑے ہیں۔ جب صحت تعلیم سے بھی بڑا کاروبار بن جائے تو پھر عوام کی خدمت کون کرے؟ عوام جو آج تک بنیادی سہولیات سے محروم رہتے آئے ہیں۔ اس عوام کے بارے میں ہمارے سیاستدان صاف الفاظ میںکہتے تو نہیں مگر وہ سمجھتے یہی ہیں کہ خدا نے ان کو اس لیے پیدا کیا ہے وہ سیاستدانوں کے لیے نعرے لگائیں اور ان کے لیے ووٹ دینے جائیں۔ہمارے سیاستدانوں کے خلاف کوئی عوامی بغاوت نہیں ہوئی؛ اس لیے وہ اب سمجھنے لگے ہیں کہ حالات کیسے بھی ہوں مگر یہ عوام کا حق ہے کہ ہمارے احتجاجی جلسوں میں شرکت کریں اور اس کی وجہ سے وہ بھلے کورونا کا شکار ہوجائیں مگر جلسوں میں آئیں۔ کیا یہ سیاست کا عوام دشمن اور شرمناک تصور نہیں ہے؟ میں حکومت کا حامی نہیں ہوں۔ حکومت کے حوالے سے بھی تنقید ہوسکتی ہے اور ہونی چاہئیے مگر اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ان لوگوں کو بچایا جائے جنہیں سیاسی جلوے دکھانے کی لالچ میں ایک خطرناک وبا کی آگ میں جلانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وہ سیاستدان جنہیں صرف تھوڑا شک ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو آسانی سے تنہا کردیتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے گھر گھر نہیں بلکہ محلات ہیں۔ ان کے گھروں میں مہنگے ہسپتال کا جدید ترین آئی سی یوز بھی موجود ہیں۔ انہیں علاج کی کیا فکر؟ مگر مسئلہ تو ان لوگوں کا ہے جن کے خاندان بڑے اور گھر چھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ سماجی فاصلہ قائم کریں تو کیسے؟ ان کے لیے ہمارے سابقہ حکمرانوں کے پاس کیا حل ہے؟ ہماری اپوزیشن کے ہیروز اور ہمارے سابق حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ اگر انہوں نے اپنے پندرہ بیس برس کی حکمرانی کے دوران عوامی صحت کے لیے عملی اقدامات اٹھائے ہوتے اور آج ملک میں صحت کی بہتر اور سستی سہولیات میسر ہوتیں تو کورونا میں مبتلا لوگ علاج کے لیے وہاں جاتے۔ مگر انہوں نے نہ تو صحت پر دھیان دیا اور نہ تعلیم کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور اگر وہ کرتے بھی تو کیوں کرتے؟ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہوتا اگر سیاستدانوں کے سینوں میں دل ہوتا۔ان کے سینے میں دل نہیں بلکہ ایک کلکیولیٹر ہے۔ وہ دل سے کرپشن سے کمائی ہوئی دولت گنتے رہتے ہیں۔انسانیت کی خدمت تو ہر صورت میں ہوسکتی ہے۔ سیاست اب تک لوٹ کھسوٹ اور اپنے اقتداری مفاد میں عوام کو بہیمانہ انداز سے استعمال کرنے کا کام کر رہی ہے۔ وہ کورونا کی اس اٹھتی ہوئی آندھی میں غریب عوام کو یہ نہیں کہتے کہ آپ لوگ اپنے غریب خاندانوں کے سہارے ہو ؛ اس لیے اپنی صحت کا خیال رکھو۔ سیاسی اجتماعات سے گریز کرو۔ سیاست تو چلتی رہے گی مگر انسان کی زندگی بہت اہم ہے۔ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ عوام کو گمراہ کرنے کا کوئی موقعہ نہیں گنوایا جاتا۔ جب جرنلسٹ سیاستدانوں سے کورونا کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ عوام کو شعور دینے اور انہیں احتیاط کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے یہ بیان ٹھوک دیتے ہیں کہ ’’اصل کورونا تو حکمران ہیں‘‘ ایسے بیانات سے کیا حاصل ہوگا؟ کیا یہ بیانات عام کو کورونا کی آگ میں دھکیلنے کی سازش نہیں؟ ہمارے سیاستدان سمجھتے ہیں کہ عوام قربانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ انہیں کورونا کے حالات میں بھی جلسوں میں شریک کرنے کے لیے اپیلیں کرتے ہیں۔ ان کے لیے گاڑیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کو بریانی کی تھیلی دیتے ہیں۔ کیا بریانی کی ایک تھیلی میں کسی کو کورونا کی وبا کے حوالے کردینا کوئی انصاف ہے؟ سیاست تو انسانیت کی مددگار اور ساتھی ہونی چاہئیے۔ جب سیاست عوام کو دھوکہ دینے اور انہیںامراض کے مقتل میں دھکیلنے کا نام بن جائے تو پھر ہم عوامی بھلائی اور ملک کی بہتری کے سلسلے میں کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟جب شاخ ہی پنجرہ بن جائے تو پھر پرندے اپنا آشیانہ کہاں بنائیں؟