امریکہ میں تشدد کی لہر صرف اور صرف سفید فام اکثریت کی بالادستی کے نعرے سے وابستہ نہیں، بلکہ اس کی روح رواں وہ شدت پسندانہ مذہبی سوچ ہے جو عیسائیت کا سخت ترین مؤقف رکھنے والے گروہ ’’ایونجلیکل‘‘ (Evangelical) سفید فام عیسائیوں اور قدامت پرست رومن کیتھولک عیسائیوں نے مل کر ترتیب دی ہے اورجو بندوق اٹھا کر بزورِ قوت امریکہ پر عیسائی مذہب کی حکومت الٰہی (Theocracy) کے نفاذکے لیے امریکہ کے ہر شہر اور قصبے میں جانثاروں کے گروہ ترتیب دیتے چلے آرہے ہیں۔ سفید فام بالادستی کے گروہ تو امریکہ بھر میں مختلف تنظیموں میں بٹے ہوئے تھے اور اپنے اپنے علاقوں میں ’’حسبِ توفیق‘‘ سیاہ فاموں، ہم جنس پرستوں، مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کر کے اپنے جنون کو ٹھنڈا کرتے رہتے تھے، لیکن امریکہ کے طول و عرض میں سفید فام عیسائی مذہبی بالادستی کو ایک تحریک کی صورت پادریوںکے خطبوں اوربا مقصد لٹریچر کی فراہمی نے بدل کر رکھ دیا ہے۔امریکی عیسائیت کی تاریخ میں ’’بلی گراہم‘‘ (Billy Graham) کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اسے بیسویں صدی کا سب سے زیادہ اثر پذیر عیسائی رہنما تصور کیا جاتا ہے، جس کی تقریریں، ٹی وی اور ریڈیو کے پروگرام آج بھی سنے جاتے ہیں۔ یہ شخص 1947ء سے 2005ء تک امریکی مذہبی اور سیاسی افق پر چھایارہا۔ وہ ’’عیسائت‘‘ کی ’’نشاطِ ثانیہ‘‘ کا علمبردار تھا۔ اس شخص کے نام پر بنائی گئی ایسوسی ایشن (BGEA) اور عالمی عیسائی ریلیف تنظیم ’’سمارٹین پرس‘‘ (Smaritan Purse) کا سربراہ فرینکلن گراہم (Franklin Graham)وہ شخص تھا جس نے پورے امریکہ سے ٹرمپ کے الیکشن کے لیے کروڑوں ڈالر اکٹھے کیے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اسلام کے بارے میں شیطانی (Evil) اور فاسق (Wicked) کے الفاظ استعمال کیے۔ اس شخص کا امریکی حکومت میں اسقدر اثرو رسوخ ہے کہ یہ پینٹاگون کا ’’گڈ فرائیڈے‘‘ کا خطبہ دیتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم اور سرمایہ جمع کرنے والا دوسرا اہم کردار رالف ریڈ (Ralf Read) تھا۔ یہ شخص امریکہ میںعیسائی اتحاد (Christian Coalation)قائم کرنے والوں میں سے تھا۔اس شخص نے عیسائیت کے تمام مسالک کو ایک پلیٹ فام پر جمع کیا۔ یہ عیسائی شدت پسندی کو اپناایک روحانی تجربہ بتاتا ہے ۔ اس کے مطابق مقدس فرشتہ جبرائیل ؑ اسے حضرت عیسیٰ ؑ کے حضور لے گیا اور پھراس نے ان کی ہدایت پر ’’ایونجلیکل اسمبلی آف گاڈ‘‘ کے نام پر چرچ کی بنیاد رکھی۔ اس جیسے لاتعداد شدت پسند عیسائی مذہبی سیاسی رہنما تھے جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو محض ایک ریپبلیکن پارٹی کا صدارتی امیدوارا نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے ایک ایسی شخصیت کا درجہ دے دیا ہے جس کے کندھے پر سوار ہوکر ایک دن امریکہ میں عیسائی مذہب کی ’’خدائی حکومت‘‘ قائم ہوجائے گی۔ کیپٹل ہل کی عمارت پر حملے کے بعد عیسائی شدت پسندی کے بہت بڑے علمبردار فرانسس آگسٹ شیفر (Francis August Schaeffer) کے بیٹے ’’فرینک شیفر‘‘نے اپنی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں اس نے ان عیسائی مذہبی شدت پسندوں کی مکمل تیاریوں کی تفصیل بتائی ہے۔ فرینک کا باپ فرانسس وہ شخص تھا جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیامیں ایونجلیکل عیسائیت کو جدید نظریاتی خدوخال عطاء کیے ۔ اسے دیگر مذاہب کے لوگ اور اپنے ہی عیسائی مسالک کے پادری ایک عیسائی صہیونی (Chirstian Zionist) کہتے تھے۔ یہ وہ شخص ہے جس کی کتاب ’’Christian Manifesto‘‘ ( عیسائی مینی فیسٹو) آج عیسائی شدت پسندوں کے لیے ایک رہنما کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں اس نے کہا تھا کہ اگر جمہوری طریقے سے امریکہ میں عیسائی اخلاقیات نافذ نہیں ہوتیں اور جمہوری ادارے اسقاطِ حمل کی اجازت دے دیتے ہیں، تو پھرتمام عیسائیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بزورِ طاقت امریکی اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ فرینک شیفر نے اپنے باپ کی ساری تحریک کو اپنے گھر میں پلتے اور پروان چڑھتے ہوئے دیکھاہے اور اس کے مطابق کیپیٹل ہل کی عمارت پرچھ جنوری 2021ء کو حملہ کرنے والوں کی قیادت اس کے باپ کے تیار کردہ افراد کر رہے تھے۔ اس نے کہا ہے کہ اگر ایونجلیکل چرچ، ریڈیو، پادری اور یہ نیٹ ورک نہ ہوتا تو ٹرمپ کبھی نہیںجیت نہیں سکتا تھا۔ اس کے مطابق عیسائی مذہبی شدت پسندوں کے نزدیک جدید دنیا کے تصورات اور مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سائنس، گلوبل وارمنگ، کساد بازاری وغیرہ جیسے موضوعات ان کی بحث کا حصہ ہی نہیں ہیں۔اس نے کہا کہ ایونجلیکل اور قدیم شدت پسند رومن کیتھولک عیسائیت اور سفید فام بالادستی کا مشترکہ اتحاد خطرناک حد تک منظم ہو چکا ہے۔ اس کے نزدیک امریکن میڈیا اس بارے میں سب کچھ جانتا ہے لیکن ان مذہبی شدت پسندوں کے خوف سے اپنی زبان نہیں کھولتا۔ سفید فام بالادستی کی مہم کوئی بڑا خطرہ نہیں، اگر اس کی پشت پر ایسا عیسائی مذہبی جنون نہ ہوجو ایک عام امریکی کو جان دینے اور جان لینے کے لیے تیار کرتا ہے۔ یہ شخص گذشتہ 35سال ے اپنے باپ کے راستے کو چھوڑ چکا ہے لیکن ایک باخبر کی حیثیت سے اس نے امریکیوں کو خبردار کیا ہے کہ ایک بڑے انقلاب کی تیاریاں 70کی دہائی سے کی جاری تھیں اور اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب یہ لوگ امریکہ کو عیسائیت کا ’’ایران‘‘ بنا کر دم لیں گے۔ سفید فام لوگوں کی بالاستی کے تصورات گذشتہ دو سو سالوں سے امریکہ کی نصابی کتب میں بھی پڑھائے جارہے ہیں۔ نصاب کے سارے ہیرو یورپ کے سفید فام بادشاہ ہیںیا فلسفی، شاعر اور ناول و افسانہ نگار۔یہ وہ بر اعظم ہے جہا ں سے امریکی سفید فام آئے تھے۔ کسی کالے یا خاکی کے آبائی وطن افریقہ یا ایشیا کا کوئی ہیرو بچوں کی کتب میں نظر نہیں آتا۔قدیم ریڈ انڈین کے ملک امریکہ کو ایک مہاجرین کا ملک (Immigrants Country)بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بچے ان قدیم ریڈ انڈین کو بھی باقیوں کی طرح باہر سے آیا ہوا ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح انگریزی زبان کو بھی ایک فاتح اور جاندار سفید فام قوم کی زبان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو امریکہ میں باقی لوگوں کی مادری زبانوں پر غالب آگئی تھی۔ یہاں تک کہ ’’آدم و حوا‘‘ کی تصویریں اور مجسمے تک سفید فام ہی بنائے جاتے ہیں۔ ’’افریقہ‘‘ کے جنگلوں میں رہنے والا ٹارزن سفید فام ہوتا ہے۔ تمام منفی تصورات سیاہ فاموں سے وابستہ ہیں جیسے بلیک میل، بلیک شیپ وغیرہ۔ سیاہ فام لوگوں کے بارے میں کبھی یہ نہیںبتایاجاتا کہ وہ اور ان کے آباء و اجداد بھی کبھی اپنے ملکوں کے آزاد شہری ہوا کرتے تھے بلکہ انہیں پیدائشی طور پر غلام بتایا جاتا ہے جنہیں ’’گوروں‘‘نے ’’کمال مہربانی ‘‘سے آزادی دی۔ چھ جنوری سے امریکی جمہوریت، لبرلزم اور سیکولرزم کے تصورات کے خاتمے کی جانب ایک مسلح جدوجہد کا آغاز ہوچکا ہے۔ کسی بھی ملک میں ایک خونی انقلاب کے لیئے جتنے مسلح افراد کی ضرورت ہوتی ہے، آج امریکہ میں اس سے کئی گنا زیادہ ایسے افراد موجود ہیں اور وہ متحرک بھی ہو چکے ہیں۔ کسی خونی انقلاب کے پیچھے ایک نظریے کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر کسی مذہب کی ترغیب کی ۔ بدقسمتی سے امریکہ میں یہ دونوں خوفناک حد تک یک جان ہوچکے ہیں، ’’سفید فام بالادستی‘‘ اور ’’عیسائیت کی خدائی حکومت‘‘۔اس وقت سب سے زیادہ خوفزدہ امریکی انتظامیہ ہے جو محسوس کر رہی ہے کہ چھ جنوری تو دراصل ایک ریہرسل تھی جس کے بعد یہ تمام گروہ اب زیر زمین جا چکے ہیں۔ انہوں نے رابطے کے لیے خفیہ چینل بنا لیے ہیں۔ انٹرنیٹ چیٹ رومز اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ نگرانی ممکن نہیں۔لیکن اس سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ جب بیس جنوری کو یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں کے سرکاری مراکز پر قبضے کے لیے نکلیں گے تو ڈیوٹی پر مامور کون کون سفید فام فوجی یا سپاہی ہوگا جو ان کے ساتھ جا ملے گا اور اپنے ہی ساتھیوں پر بندوق تان لے گا۔ یہ ہے وہ خوفناک اور المناک منظر جس سے امریکی انتظامیہ خوفزدہ ہے۔( ختم شد)