سارے عالم پر ہوں مَیں چھایا ہوا

مستند ہے میرا فرمایا ہوا

آدمی کے ڈبونے کو، یہ ایک دعویٰ بہت کافی ہے۔ لیکن کتنا مشکل ہے اس تعلی سے، بچنا! ایک یہ دعویٰ زبان سے کرتا ہے، دوسرا زبان ِحال سے۔ تیسرا عجز و انکسار کا پْتلا ہے، پر اس کا بھی باطن ظاہر ہوا جاتا ہے۔ اللہ! اللہ! کل تک نہ ہوش تھا اور نہ یہ جوش۔ چلتے تھے گھٹنوں گھٹنوں۔ کھاتے تھے چڑیا کے چوگے جِتنا۔ ذرا جو آنکھیں دنیا میں کھْلیں تو کھْلی کی کھْلی رِہ گئیں۔ "میں بھی ہوں" کا گمان اتنا بڑھا کہ ع

ہوش کے ٹکڑوں سے، مَیں مَیں کی صدا آنے لگی

بھول گئے کہ ع

چار دن کے واسطے، مٹی کو ہوش آیا تو کیا؟

بندگی اور بے چارگی قدم قدم پر ظاہر ہوتی جاتی ہے۔ مگر اتنا ہی غرور، سَر چڑھ کر بولتا جاتا ہے۔ فکر ِمآل نہ ہو، تو بڑی سے بڑی بْرائی بھی، کیوں نہ کی جائے گی؟ ہوس کا عالَم یہ ہے کہ "ذرا سی دنیا اَور" کا وِرد،  سانس ہی کے ساتھ رْکے گا۔ کوچہ و بازار مخلوق سے بھرے ہوئے، خلقت سے خالی۔ آدمی موجود، انسان غائب۔ جسم حاضر، روح ناپید۔ دماغ پْر، دل تہی۔ لیڈر ع

ہے قوم تو بے زر، مگر اْڑتا ہے زر ِقوم

کا چلتا پھرتا اشتہار۔ نصیحتیں اور وعظ، چوبیس گھنٹے نشر ہو رہے ہیں،  اثر ان میں نہ پائیے گا۔

 اعتدال، جس پر زور دیا گیا تھا، عنقا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ دنیا نہیں یہ دنیا داری ہے جو برباد کرتی ہے۔ دنیا کی اہمیت سے انکار کیوں ہو؟ جب انسان کا سارا "دفتر ِعمل"، یہیں سے پیش ہونا ہے، تو اس سے زیادہ اہم اَور کیا ہے؟ جو کماتا ہے، اسی سے کماتا ہے۔ جو کھوتا ہے، اسی کی بدولت کھوتا ہے۔ وقت کی پونجی محدود ہے۔ اسے ضائع کرنا، خود کو ضائع کرنے کے برابر ہے۔ ایک ایک پَل کا حساب، جمع ہوتا جا رہا ہے۔

سمجھا تھا میں کہ وقت جو آیا، گْزر گیا

کہتا ہے فلسفہ کہ تجھی میں ٹھہر گیا

سمجھا ہے جس کو وقت، وہ تیرا ہی ہے ظہور

دامان ِعْمر تیری ہی ہستی سے بھر گیا 

خاتون وزیر ِاعظم نے، دردمندوں کے آنسو پونچھ کر اپنا فرض ادا کیا۔ مسلمان حکمران بھی، اقلیتوں کی دست گیری کریں تو اس میں حیرت کیوں ہو؟ کیسا زمانہ ہے کہ انسان میں انسانیت کا ہونا، اب داد و تحسین کا محل ہے! خدا نے یہ مْلک، جس شخص کے ہاتھوں قائم کرایا تھا، اس کا بھی پیغام یہی تھا کہ مْلک میں سب کے حقوق کا یکساں تحفظ کیا جائے گا۔ مگر کیا اکثریت اور کیا اقلیت، سب کو شکنجے میں کَس دیا گیا، چکی میں پیس دیا گیا۔ کیسا زرخیز اور ہرا بھرا تھا یہ مْلک۔ اور کیا حال کر دیا گیا اس کا!

اثر سے ہیں تہی نالے، تصرف سے ہیں دَم خالی

نیستاں ہو گئے شیروں سے یارب، یک قلم خالی

دس بیس نہیں درگزر، صلہ رحمی اور عدل و انصاف کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں، جن کی نظیر کوئی دوسری قوم پیش نہیں کر سکتی۔ حضرت علی خلیفہ ٔ وقت ہیں۔ ان کا مقدمہ عدالت میں پہنچتا ہے۔ قاضی فیصلہ دیتا ہے فریق ِدوم، ایک یہودی کے حق میں۔ شیر ِخدا دَم نہیں مارتے۔ انصاف کا یہ معیار دیکھ کر، یہودی کا دِل موم کی طرح پگھل جاتا ہے۔ سچ ہے کہ تاریخ کے کتنے ہی مقدمے، شیر ِخدا کی تلوار نے فیصل کر دیے ہیں۔ جہاں اٹھی ہے وہاں بھی، اور جہاں نہیں اٹھی وہاں بھی!

حضرت عمرؓ کا جلال اور دبدبہ، بڑے بڑے گورنروں کو لرزا دیتا ہے۔ لیکن ان کے فقر اور سادگی کی بھی، مثال نہیں ملتی۔ قیصر ِروم کا ایلچی، ان کے لیے پیغام لے کر شہر میں وارد ہوتا ہے۔ پوچھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ کا محل کہاں ہے؟ لوگ ہنس دیتے ہیں۔ اشارے سے بتایا جاتا ہے کہ وہ اْس درخت کے نیچے آرام فرما ہیں۔ حیران ہو کر، وہ ان کے پاس پہنچتا ہے۔ کتنی ہی دیر، حیرت زدہ انہیں دیکھتا رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ میں بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں، کبھی گھبرایا نہیں۔ یہاں

بی سلاح این مرد ِخفتہ بر زمین/من، بہفت اندام لرزاں، چیست ایں؟ /اور پھر اسے جواب مِل جاتا ہے۔/ہیبت ِحق است، این از خَلق نیست/ہیبت ِاین مرد ِصاحب دلق نیست

اس گدڑی پوش انسان کا نہیں، یہ رعب و دبدبہ، حق تعالیٰ کا ہے! یہی حضرت عمرؓ جب دوسرے علاقوں میں والی تعینات کرتے تھے، تقرری کے ساتھ ایک پروانہ بھجواتے تھے۔ یہ پروانہ، اس علاقے کے عوام کے سامنے سنا کر، ان کے روبرو والی سے عہد لیا جاتا۔ اس میں پانچ باتیں ہوتیں۔ پڑھیے اور آج کے مقابلے میں، زمین آسمان کا فرق دیکھیے!

والی سواری کے لیے، تْرکی گھوڑے نہیں استعمال کرے گا"۔(مہنگی سواریوں سے پرہیز)۔ مسلمانوں میں آج ایسے بھی حکمران ہیں، جن کی گاڑیوں کے ڈھانچے، سونے کے بنے ہوئے ہیں۔ وجہ؟ تام جھام جتنا زیادہ ہو گا، اتنا ہی "رعب" عوام پر رہے گا اور یہ دور رہیں گے۔

کپڑے باریک نہیں پہنے گا"۔(لباس عام لوگوں سے مختلف نہ ہو) عوام کے خادم کی ڈیڑھ کروڑ روپے کی گھڑی یاد کر لیجیے! لباس دوسروں سے اتنا مختلف ہے کہ سب میں ممتاز نظر آتے ہیں اور کوئی قریب نہیں پھٹکتا۔ آٹا چھَنا ہوا نہیں کھائیگا۔(سادہ کھانا اور خورونوش پر زیادہ خرچ کی ممانعت) یہاں حالت یہ ہے کہ

اک ڈنر میں کھا لیا اتنا کہ نکلی تن سے جاں

خدمت ِقومی میں بارے جاں سپاری ہو گئی!

دروازوں پر دربان نہیں رکھے گا"۔(کوئی پروٹوکول نہیں ہونا چاہیے) وزراء کے بڑے بڑے محلات دیکھ لیجیے اور پہرے دار بھی۔ مجال ہے جو کوئی دروازہ کھٹکا بھی سکے!

اس کا دروازہ حاجت مندوں کے لیے کھْلا رہے گا"۔(حاکم کا زیادہ وقت، عوام کے کے دکھ درد دور کرنے میں گزرنا چاہیے) یہاں عوام کو شکل صرف انتخاب بہ انتخاب دکھائی جاتی ہے۔ پانچ سال ان کی جان کو روتے رہیے۔اصلی ریاست ِمدینہ کا نقشہ آپ کے سامنے ہے!