میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس وقت پاکستان میں جہادی تنظیموں پہ پابندی کے تناظر میں مسلم نوجوان کے اشتعال کے اسباب اور جہادی تحریکوں کی فکری آبیار ی کے موضو ع پہ میرے کالموں کی سیریز شائع ہوگی اس کے چند دن بعد ہی نیوزی لینڈ میں لن ووڈ اور کرائسٹ چرچ میں معصوم نمازیوں کے قتل عام کا اندوہناک واقعہ رونما ہوجائے گا جس کا ذمہ دار کوئی مسلم دہشت گرد گروپ نہیں ایک سفید فام غیر مسلم انتہا پسند ہوگا۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا اب یہ مسلم دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ سفید فام ٖغیر مسلم نوجوان کے اشتعال کے اسباب پہ غور کرے؟اور کیا غیر مسلم نوجوان مسلمانوں کے خلاف اشتعال کی اس حد کو پہنچ چکا کہ اس کے ہر انتہاپسندانہ رویے کی توجیح پیش کی جاسکے اور کیا واقعی مسلمان اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں کہ ان کے خلاف نفرت و تشدد کا ایسا مظاہرہ کیا جائے؟کیا مجھے ایک بار پھر اس اشتعال کے اسباب جاننے کے لئے برنارڈ لوئیس کا حوالہ دینا پڑے گا؟ایک بار پھر یاد کیجیے مسلم نوجوان کے اشتعال کے اسباب کے باب میں برنارڈ لوئیس کیا کہتے ہیں؟مسلم نوجوان اس وقت ہتھیار اٹھاتا ہے جب اس کا دین خطرے میں ہو اور کوئی مرکزی حکومت اس کے دفاع کے لئے موجود نہ ہو،یا اپنے فرائض سے صرف نظر کررہی ہو۔مسلمان حکمران اپنی عملداری کو کسی غیر ملکی یا لادینی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے استعمال کررہے ہوں۔اس کے اپنے مسلمان حکمران احکام شریعہ کی پابندی کرتے ہوں نہ ہی اسے ایک نظام کے طور پہ نافذ کرنے کے لئے قوت و اقتدار کا استعمال کررہے ہوں۔دنیا میں کہیں بھی اس کے ہم مذہب جبر اور استبداد کا نشانہ بن رہے ہوں اور یہ اس کا فرض ہو کہ وہ ان کی حمایت میں اگر ہتھیار اٹھالے ، اگر یہ تمام وجوہات موجود ہوں اور مسلم نوجوان اس نتیجے پہ پہنچے کہ ایک مرکزی قوت نافذہ حاصل کئے بغیر اس کے مسائل کا حل ممکن نہیں کیونکہ وہ خلافت راشدہ کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے جب مسلمان آدھی دنیا پہ حکمران تھے اور خلیفہ وقت ایک بکری کے بچے کے تحفظ کا بھی ذمہ اٹھاتا تھا،تو وہ اسے مقصود و مطلوب سمجھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسی ہر تحریک کا حصہ بن جاتا ہے جو اسے خلافت کا خواب دکھاتی ہے ۔اگر اس خلاصے پہ غور کیا جائے تو مسلم نوجوان کے لئے جدید تاریخ میں بالعموم اور نائن الیون کے بعد بالخصوص ہتھیار اٹھانے یا جابجا مسلح کارروائیوں کے مظاہرے جہاں وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے،کافی جواز مل جاتا ہے۔اسی تناظر میں نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے ذمہ دار قاتل برینٹن ٹیرنٹ کی ذہنیت کو سمجھنا ہوگا جو اس وقت پورے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف پل رہی ہے ۔عالمی میڈیا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اس قطعی مسلم دشمن رویے کو سفید فام نسلی تعصب کے واقعے میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن خود قاتل برینٹن ٹیرنٹ اس ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے جس کی بنیاد نسل پرستی نہیں اسلام دشمنی ہے جس کے آلہ دہشت گردی پہ آٹھویں سے سترھویں صدی کے درمیان برپا ہونے والی مسلم عیسائی جنگوں کی تفصیلات کندہ تھیں۔ان میں سے اکثر وہ تھیں جن میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔اگر ایسا نہ ہوتا توعین ممکن ہے کہ آج بھی یورپ پہ مسلمانوں کی حکومت ہوتی اور بقول مشہور مورخ ایڈروڈ گبن کے آکسفورڈ میں قران وحدیث پڑھائے جارہے ہوتے۔دہشت گردی کی اس سنگین ترین واردات میں استعمال ہونے والی بندوق کے دستے پہ کنداںایک نام معرکہ 732؁ میں برپا ہونے والی بلاد الشہدا کا تھا جس کا شمار دنیا کی اہم ترین جنگوں میں ہوتا ہے۔دس روز جاری رہنے والی اس جنگ میں مسلم اسپین کے اموی حکمران عبدالرحمن کی قیادت میں مسلم افواج نے قلیل تعداد کے باوجود مسیحی فرانس کے کئی اہم شہروں پہ قبضہ کرلیا لیکن دیگر مسیحی ریاستوں کی بروقت کمک سے مسلمانوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ حملہ آوروں کی بلٹ پروف جیکٹ پہ اطالوی سپہ سالار سباستیانو وینئر کا نام کندہ تھا جس نے 1571 میں لیپانتو کے معرکہ میں مسیحی اتحاد کے مقابلے میں خلافت عثمانیہ کی شکست میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔اس کی بندوق کے میگزین پہ 1683 کے سلطان سلمان عالیشان کے ویانا محاصرے کی نشانی بھی کندہ تھی جو ناکام رہا تھا لیکن یورپ کے قلب میں پہنچنے کے باعث خلافت عثمانیہ کی دھاک سارے یورپ میں بیٹھ گئی تھی۔اس المیے کو ایک طرف رکھئے کہ ایک سفید فام دہشت گرد اپنی تاریخ سے کس حد تک نہ صرف واقف تھا بلکہ اسے مقصود بنائے بیٹھا تھا اور ہمارے بچوں نے ان معرکوں کے کبھی نام بھی نہ سنے ہونگے، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کیا ان جنگوں کو کسی سفید فام غیر مسلم کے اشتعال کا سبب سمجھا جاسکتا ہے؟ظاہر ہے کہ نہیں۔کیونکہ ان جنگوں کے تین چار سو برسوں بعد آج یورپ بھلے مسیحی نہ رہاہو لیکن سفید فام برتری تو اپنے عروج پہ ہے۔ان کی مرکزی حکومتیں بشمول امریکہ اور یورپی یونین،اقوام متحدہ اور دیگر بے شمار فعال تنظیمیں ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے نہ صرف موجود ہیں بلکہ دنیا کے جس ملک پہ چاہے چڑھائی کردیتی ہیں۔ایسے میں برینٹن ٹیرینٹ جیسے نوجوانوں کے اشتعال کا ایک ہی سبب ہوسکتا ہے۔مسیحی نشاہ ثانیہ کی واپسی اور مسلم یورپ کے بھیانک خواب کی تعبیر کا خوف جو اسے مسلم تارکین وطن کی صورت میں ڈراتا رہتا ہے۔وہ مسلم تارکین وطن جواپنا ملک تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اپنا مذہب اور روایات ساتھ لے آتے ہیں۔ یہ خوف صرف برینٹن ٹیرنٹ کا نہیں پورے مغرب کا ہے جو مغرب کی اسلامائزیشن سے خوفزدہ ہے اور اپنے قول و فعل سے اس کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ امریکہ کی چالیس ریاستوں میں دو سو اینٹی شریعہ قوانین کی منظوری اور مسلم تارکین وطن کے شریعہ لا کے خلاف مسیحی اور سیکولر گروپوں کی منظم مہم سب اسی کا حصہ ہیں۔شام اور عراق کی خانہ جنگی سے بے حال ودرماندہ مسلمان مہاجرین کی یورپ آمد نے ہنگری کے وزیراعظم کو اتنا خوفزدہ کیا کہ انہوں نے اپنے ملک کی سرحدیں ان کے لئے کھولنے سے انکار کردیا اور اسے یورپ کی اسلامائزیشن کی سازش قرار دیا۔ pew انسٹی ٹیوٹ کا ایک سروے بتاتا ہے کہ مسلمان اپنا ملک چھوڑ کر تو آجاتے ہیں لیکن نہ یورپی رسم و رواج کو اپناتے ہیں نہ اپنے مذہب سے دستبردار ہوتے ہیں بلکہ جرمنی میں مسلم نوجوانوں نے شریعہ پولیس تک بنا ڈالی۔یہی وہ خطرہ ہے جو برینٹن ٹیرنٹ کو مسلمانوں پہ بارود اگلنے پہ مجبور کرتا ہے اور جس پہ بڑی پرکاری سے سفید فام نسلی تعصب کا پردہ ڈالا جارہا ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ مسلمان یورپ کی مسجدوں میں کاٹے جاتے رہیں گے اور یورپ ٹسوے بہاتا رہے گا۔