مشن کشمیر مکمل کر کے وزیر اعظم عمران خان وطن واپس پہنچے تو ہوائی اڈے کے باہر ان کے پرجوش استقبال کی خاطر عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پاکستان کے عام شہریوں کے ساتھ کشمیری باشندے بھی وزیر اعظم کو خوش آمدید کہنے کو موجود تھے۔ اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ پاکستانیوں کو مشکل وقت پر مایوس نہیں ہونا اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونا جہاد ہے۔ وزیر اعظم کے تازہ بیان کو اگر امریکہ روانگی سے قبل لائن آف کنٹرول کے پار جا کر جہاد کرنے کو بیتاب کشمیریوں سے کئے گئے وعدے کے تناظر میں دیکھا جائے تو ’’جہاد‘‘ کا لفظ بھرپور ابلاغیاتی معنویت کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ پاکستان نے تنازع کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے بھارت کو مذاکرات کی بارہا پیشکش کی۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو طرفہ تعلقات کو کشیدگی سے نکالنے کے لئے ابتدا سے کوشش کی۔ کرتار پورراہداری کھولنے کا فیصلہ ان کوششوں کا حصہ ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت کی انتہا پسند حکومت خطے کے عوام کی مشکلات ختم کرنے کی بجائے پونے دو ارب انسانوں کو جنگ کی تباہی میں دھکیلنے کی خواہاں نظر آتی ہے۔ ایسی ہٹ دھرم ‘ بین الاقوامی ضابطوں کی انکاری اور اقوام متحدہ میں اپنے وعدوں سے مکرنے والے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانا ضروری تھا۔ عمران خان نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اہل کشمیر کے سفیر ہیں اور آخری دم تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہہ کر محصور کشمیریوں کا حوصلہ بڑھایا ہے کہ دنیا کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہو یا نہ ہو پاکستان ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں بہیمانہ کرفیو اور ذرائع ابلاغ پر پابندی لگا کر کشمیر کو جیل میں بدل دیا ہے ۔ بھارتی فوج نہتے معصوم بچوں کو گھروں سے اٹھا کران کو شہید کر رہی ہے۔ 7ہزار سے زائد کشمیری رہنمائوں و کارکنوں کو ہندوستان کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میںمنتقل کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ مودی سرکار کی سابق اتحادی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی کو بھی اپنی ماں سے ملنے کے لئے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ لگ بھگ دو ماہ کے جابرانہ کرفیو سے کشمیر میں غذائی قلت کے علاوہ ادویات کی عدم دستیابی سے مریض ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے بڑھ کر سفاکیت اور ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ کشمیریوں کو اپنے عزیزوں کی تدفین کے لئے بھی جارح فوج سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ مساجد میں اذان اور نمازجمعہ کی ادائیگی پر پابندی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم کا یہ کہنا مبنی بر انصاف ہے کہ کشمیر کے ساتھ کھڑا ہونا جہاد ہے اور ہم کشمیریوں کے ساتھ اللہ کو راضی کرنے کے لئے کھڑے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے اور اس دیرینہ تنازع کو پاکستان و بھارت کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کے پابند ہیں ۔اقوام متحدہ اس عمل کی نگران اور ضامن ہے۔ بھارتی حکمران 72برس سے اپنے مکرو فریب سے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر کے اور پاکستان کے معاشی مسائل کا فائدہ اٹھا کر کشمیر پر جابرانہ تسلط برقرار رکھے ہوئے تھے۔ مگر ہندو توا کی پرچارک اور مسلمان دشمن مودی حکومت نے اپنے پہلے پانچ سالہ اقتدار میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا۔آر ایس ایس کے غنڈوں کی سرپرستی میں گائو رکھشا کے نام پر بھارت کے مسلمانوں کو اس قدر خوف زدہ کر دیا گیاکہ وہ اپنی جان بالخصوص عزتوں کی پامالی کے خوف سے مودی کے کسی بھی غیر انسانی اقدام پر آواز اٹھانے کی جرات تک نہیں کر رہے اور اپنی عزت اور جان کی خاطر مودی کے اسلام دشمن اقدامات کی تائید کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ اس کی مثال کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جب دنیا بشمول اقوام متحدہ تک مودی سرکار کے اقدامات پر شدید تنقید کر رہی ہے اس وقت بھی جمعیت علماء ہندکے مہتمم حضرات مودی کے حق میں قرار دادیں منظور کر رہے ہیں۔ اسے مودی کا مکروہ فریب کہیئے یا پھر بھارت کی بڑی منڈی کا جادو ہے کہ پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں مودی کے انسان دشمن اقدامات واپس لینے کے لئے عالمی رہنمائوں پر دبائو بڑھا رہی ہیں لیکن عالمی طاقتیں یہاں تک کہ مسلمان دوست ملک بھی بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خاں کو اقوام متحدہ کے اہم ترین فورم پر کشمیر کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے یہاں تک کہنا پڑا کہ عالمی برادری فیصلہ کرے کہ اس کے لئے انسان اور انسانیت اہم ہے یا کاروباری مفادات۔ وزیر اعظم بھر پور انداز میں نہ صرف کشمیر بلکہ اسلام کا مقدمہ بھی پیش کر چکے ہیں بلکہ یہ پاکستان کے اصولی موقف اور وزیر اعظم کے خلوص نیت کا ہی اثر تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر کے دوران اقوام متحد ہ ایسا سنجیدہ فورم بھی تالیوں سے گونجتا رہا۔ وزیر اعظم کے کشمیر مشن کو نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ مغربی میڈیا میں بھی بھر پور پذیرائی ملی ہے۔ کشمیر کی صورت حال دنیا کے سامنے آ چکی ہے ۔ وزیر اعظم نے چند روز میں امریکہ اور دنیا کے سیاسی سماجی و کاروباری رہنمائوں سے ملاقات کر کے ان کے سامنے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کھل کر بیان کیا ہے۔ دنیا کو بتایا جا چکا ہے کہ تنازع کشمیر مقامی آبادی کی خواہش کے مطابق طے نہ ہوا تو جہاد سمیت تمام طریقے آزمائے جا سکتے ہیں۔